سب سے پہلے تو بصد احترام یہ کہ اگر ہمارے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے وزیراعظم محترم میاں نواز شریف دس سال جیل کاٹ بھی لیں تو وہ کم از کم نیلسن منڈیلا نہیں بن سکتے۔ یہ وضاحت میں نے ابتدا ہی میں اس لئے کردی کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین سابق صدر محترم آصف علی زرداری نے جب دس گیارہ سال کچی پکی جیل کاٹ لی تو ان کی جیالا قیادت اور دانشوروں نے انہیں پاکستان کا ’’نیلسن منڈیلا‘‘قرار دینا شروع کردیاتھا ۔اب ان جیالوں کو کون بتائے اور سمجھائے کہ نیلسن منڈیلا26سال جیل کاٹ کر آئے تو ان کی رہائی کسی فوجی حکمران سے این آر او کے بعد نہیں ہوئی تھی۔ ان پر کبھی دس، بیس فیصد تو کیا۔۔۔ ایک فیصد کی ’’کرپشن‘‘ کا الزام نہیں لگا۔۔ نہ ہی رہائی کے بعد میں دہائی اوپر اپنے ملک کا بلا شرکتِ غیرے مالک ہونے کے بعد بھی ان کے اثاثے اربوں، کروڑوں کیا لاکھوں میں بھی ظاہر نہ ہوئے۔۔۔ ان کی آل و اولاد کی زمینوں جائیدادوں اور اکاؤنٹوں کے بارے میں ہوشربا کہانیاں سنائی نہ دیں۔۔۔ اور پھر نیلسن منڈیلا تو خیر سے اس صدی میں کوئی دوسرا پیدا ہی نہیں ہوا۔ ہمارے جیسے ملک کے کسی حکمراں کو نیلسن منڈیلا سے منسوب کرنا یوں بھی اس عظیم المرتبت شخصیت کی توہین ہے۔۔۔ اور تو اور ہمارے محترم میاں نواز شریف ، خان عبدالغفار خان، عبدالصمد خان اچکزئی، میر غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی بھی نہیں بن سکتے کہ جنہوں نے پندرہ بیس سال کال کوٹھڑیوں میں گزارے مگر اپنی اصولی سیاست سے نہیں ہٹے۔ ان پر غداری اور ملک دشمنی کے الزام ضرور لگے۔ مگر کرپشن، اور اربوں کروڑوں کی جائیدادیں، اثاثے، بنانے کی تہمت نہیں لگی اور تو اور۔۔ ہمارے محترم میاں نواز شریف، ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کا مقام اور مرتبہ بھی نہیں حاصل کرسکتے کہ ایک نے بڑی جرأت سے پھانسی کا پھندا چوما تو دوسرے نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ آتش نمرود میں کودنا ہے، وطن واپسی کو ترجیح دی اور شہادت کے مقام پر پہنچی۔۔۔ یوں بھی سیاستدانوں کی وہ پیڑھی اب قصہ پارینہ ہوئی۔ اب تو محترم میاں نواز شریف کا مقابلہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری سے ہی کیا جائے گا ۔اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب وطن واپسی کے بعد محترم میاں صاحب راضی بہ خوشی اڈیالہ جیل میں قیدکاٹنے کی مشقت کے ساتھ ساتھ ’’مشق سخن‘‘ کی طرف بھی توجہ دیں۔۔۔ محترم میاں نواز شریف کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ملا ہے۔۔۔ دوسرا میں نے اس لئے کہا کہ ایک موقع انہیں اکتوبر1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ملاتھا۔۔۔ مشرف ہائی جیکنگ کیس اور کرپشن کے ا لزام میں محترم میاں صاحب کو 21سال قید بامشقت کے ساتھ غالباً کروڑ،دو کروڑکا جرمانہ بھی ہواتھا۔۔۔ یقینا محترم میاں صاحب نے مچھروں اور ناگفتہ بہ حالات کا سال بھر مقابلہ بھی کیا۔۔ ۔ سیاست کے حوالے سے یقین اور دعویٰ سے کم ہی بات کرنی چاہئے مگر بہر حال کہاجاسکتا ہے کہ اگر محترم میاں صاحب سعودی بادشاہوں کی سفارش اور ضمانت سے اپنے بیوی، بچوں اورٹرکوںمیں لدھے مال و اسباب کے ساتھ 2000ء میں مشرف حکومت سے معاہدہ کرکے جدّہ نہ جاتے تو آج تاریخ ایک بار پھر نہ دہرائی جارہی ہوتی۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا مگر2007ء میں اپنی مخالف پیپلزپارٹی سے میثاق جمہوریت کامعاہدہ کرنے کے بعد اگر وہ2008ء میں آنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کی پورے پانچ سال اینٹ سے اینٹ نہ بجاتے اور 2013ء میںاقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر اپنی مخالف پیپلزپارٹی سے اقتدار میں ہوتے ہوئے میثاق جمہوریت کرلیتے تو آج سوئے زنداں جاتے ہوئے ان کی مخالف پارٹیاں اس طرح تالیاں نہ پیٹ رہی ہوتیں۔۔۔ چلیں اس سارے ماضی پر بھی’’مٹی‘‘ ڈالتے ہیں۔۔۔ اور بہر حال اس بات کا بھی اعتراف کیوں نہ کرتے چلیں کہ جس طرح ان کے داماد کیپٹن(ر) صفدر نے پنڈی کے چوک پر نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے گرفتاری دی ہے۔۔۔ اور پھر جیسا کہ لندن میں بیٹھے محترم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی واپسی بہر صورت جمعہ13جولائی کو ہوگی اور وہ خوشی خوشی اڈیالہ جیل بھی جانے کیلئے نہ صرف تیار ہیں بلکہ اس کے بعد آنے والے کڑے امتحان سے گزرنے کیلئے بھی تیاری پکڑچکے ہیں تو اس کے بعد تو مورخین اور مخالفین کومحترم میاں نواز شریف کے’’بیانیہ‘‘ کا اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ اب یہ الگ بات ہے کہ25جولائی کے بعد آنے والی حکومت اگر ان کی نہیں آتی جیسا کہ بظاہر نظر بھی آرہاہے تو کیا وہ اپنی بد ترین مخالف جماعت تحریک انصاف کی انتقام کی حد تک بڑھی ہوئی دشمنی کا بھی مقابلہ کریں گے۔۔۔ محترم میاں نواز شریف اور ان کی جماعت ن لیگ کا امتحان اصل میں شروع ہی’’25جولائی‘‘ کے الیکشن کے بعد ہوگا۔۔۔ آگے بڑھنے سے پہلے۔۔ ۔ اس امکان کو بھی ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے کہ اگر’’25جولائی‘‘ کو محترم میاں نواز شریف کا بیانیہ پنجاب میں بک گیا تو پھر یقینا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ معجزہ ہوجائے گا۔ پاکستانی سیاست کے حوالے سے پرسپشن تو یہی ہے کہ مقتدر ادارے یا معروف معنوں میں اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ دس ماہ سے میاں نواز شریف اور ان کی ن لیگ کو ’’زندہ گاڑنے‘‘ کے درپے ہے۔۔۔ اس کے بعد لگتا نہیں کہ مستقبل میں ترتیب دینے والے’’گیم پلانر‘‘ الٹے قدموں واپس جانے کیلئے تیار ہوں کہ پھر ہمارے محترم میاں نواز شریف کا بھی اس حوالے سے ماضی اتنا صاف و شفاف نہیں۔۔۔ بھٹو صاحب کی اقتدار سے محرومی کے بعد’’ایک قبر‘‘ دو مردوں کی اصطلاح نے بڑی شہرت پائی تھی۔۔۔ ایک عرصے بعد اس اصطلاح کی بازگشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔۔ بات زیادہ کھل کر کرنا چاہ رہاتھا مگر احتیاط کا دامن اس لئے پکڑاہواہے کہ اصولی، نظری، فکری، سیاست عرصہ ہوا وطن عزیز میں لپیٹی جاچکی ہے۔۔