یہ المیہ ہے کہ پاکستانی معاشرے سے دینی تعلیم وتربیت، اسلامی ثقافت و تہذیب،جائزاورناجائزکی تمیزوترتیب،حلال وحرام کی پہچان،اسلام کے دیئے ہوئے پیمانوں کے مطابق توازن وتفکر اور ہر قسم کے نظم و ضبط ، ڈسپلن جس میں جسمانی، فکری، سماجی، روحانی، نفسیاتی، جذباتی غرضیکہ ہر قسم کا اسلامی ڈسپلن شامل ہے کاجنازہ بڑے دھوم سے نکل رہا ہے اورہم افیون زدوں کی طرح ساکت ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔حالانکہ دین نے ہمیں زندگی کا قرینہ سکھادیاتھاکہ بحیثیت مسلمان ہمارا ہر معاملہ سیدھا اورتوازن برقراررکھے ہوئے ہوناچاہئے، ہمیں خودفریبی ،خدافراموشی ،دین بیزاری ،دجل اور فریب سے پاک معاملات اور پاکیزہ طرز زندگی سکھائی گئی تھی جس میںجسمانی طہارت کے ساتھ ساتھ بدرجہ اتم روح پاکیزگی فرض کی گئی ہے مگرافسوس کہ ہم خبائث کی طرف بھٹکتے اورجہنم کی جانب لڑھکتے ہی چلے جارہے ہیں۔ نہ ہمیں کوئی روکنے والاہے اورنہ ہم اسفل السافلین تک پہنچنے سے خودکوروکنے کی سعی کررہے ہیں۔ مارچ 2019ء میں نام نہادوومنز ڈے پر لاہور،اسلام آباداورکراچی میں کچھ عورتوں نے ایسا عورت مارچ کیا جس کی گونج ابھی تک فضائوں میں ہے اور2020ء کا ماہ مارچ شروع ہی ہوااورجس کاآج پہلاہفتہ جارہاہے کہ پھرسے وہی گزشتہ برس والی چیخیں سنائی دینے لگی ہیں۔ گزشتہ سال کے نام نہاد وومنز مارچ کا متعفن مرکزی ایجنڈ ا’’میر اجسم میری مرضی ‘‘تھا حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ یہ جسم تمہاراہے اورنہ ہی مرضی تمہاری ، آغاز تمہارے بس میں اور نہ ہی انجام ۔ حیات اورنہ ہی موت کاتمہیں علم ہے، اپنی خوشی سے تم آئے اور نہ ہی اپنی خوشی سے تم واپس لوٹ سکوگی ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں جبکہ مملکت کے وزیراعظم تمام داخلی اورعالمی فورموں پرخم ٹھونک کرکہہ رہے ہیں کہ مجھے ہرحال میں پاکستان کو’’ریاست مدینہ ‘‘بناکردم لیناہے، پاکستانی معاشرہ دینی تعلیمات اوراسلامی حدودوقیوددسے کیوں کنارہ کش ہونے کی کوشش کررہاہے اورمملکت خدادادواضح طورپردو حصوںخدافراموش اورخداپرستوں میں بٹ چکی ہے۔ کیوںکہ وزیراعظم ریاست مدینہ کے خدوخال بیان کرتے ہوئے’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘جیسے غلیظ،تعفن زدہ اور گھٹیا نعروں پر سرکاری طورپرپابندی عائدکردیتے ہیں۔کیاریاست مدینہ میں العیاذ باللہ اس طرح کے کسی گھٹیاجرم کے ارتکاب کاامکان تھا؟گزشتہ کئی برسوں سے پیہم پاکستان میں ماہ مارچ کے دوران خواتین کے عالمی دن کے موقع پرپاکستان کے بڑے بڑے شہروںمیں عورتوں کے ایسے مارچ منعقد کئے جارہے ہیں۔ جس میں مسخرہ نمامردبھی عورتوں کے ساتھ اکٹھے ہوکر ایسے پلے کارڈ اٹھا ئے ہوتے ہیں ۔حالانکہ بطورمسلمان نہایت ہی ٹھنڈے دماغ سے جب اس گھٹیانعرے پرغورکیاجائے توصاف دکھائی دے رہاہے کہ جتنی مادر پدر آزادی پاکستانی معاشرے میں بڑھتی جا رہی ہے اور مختلف نعروں پرہماری خواتین اور بچیوں کو برہنہ اوربے لباس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جان بوجھ کر پاکستانی معاشرے کی بنیادیں ہلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ توطے ہے ہماری نسل پراس کے گناہ اورجرائم پرمبنی خوفناک نتائج برآمدہونگے کیونکہ دعوت گناہ کے اس نعرے کے پیچھے سوائے فحاشی کے فروغ کے اور کوئی ایجنڈا نہیں اورڈالروں پرپلنے والی این جی اوزکاایجنڈابھی یہی ہے ۔ دین سے بغاوت کرنے پرتل چکی ان عورتوں کاقطعاََ یہ مسئلہ نہیں کہ کوئی ان کے جسم کو ان کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے بلکہ انہیں اصل تکلیف یہ ہے کہ اسلام انہیں ان کے جسم کا مادر پدر آزاد استعمال کرنے سے کیوں روکتا ہے۔وہ یہ چاہتی ہیں کہ انہیں اسلامی معاشرہ میں بھی نیم برہنہ ہو کر پھرنے سے بھی کوئی نہ روکے۔ ان کا جسم ہے تو انہیں بالکل بھی نہ روکا جائے تاکہ یہ اپنی مرضی سے جو چاہیں کرتی پھریں۔لیکن دین اسلام ان کی ہی کیا بلکہ کسی کی بھی نفسانی خواہشات کے تابع نہیں، اسلام اللہ کا دین ہے اس لئے اس کے حدود و قیود اللہ کے ہی طے کردہ رہیں گئے چاہے کسی کو ان سے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ان عورتوں کویادرکھناچاہئے کہ یہ مردوں کی قائم کردہ نہیں بلکہ اللہ کی حدود ہیں۔ اس لئے ہم فقط سمجھا ہی سکتے ہیں کیونکہ یقینا یہ تمہارا ہی جسم ہے اور اس پر تمہاری ہی مرضی چلے گی، پس تم جانو اور جس کی حدود تم توڑنے چلی ہوقرآن میں واضح ارشادہے کہ ترجمہ !آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہوںان کو بھی اور جو چھپے ہوئے ہوںان کو بھی)سورہ اعراف 33) اسی طرح دوسرے مقام پرارشادہواترجمہ!جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ۔ (سورہ نور 19) اسی طرح فرمایاگیاترجمہ!اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے بے حیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ۔(صحیح بخاری 4637)اس راہنمائی سے واضح ہوجاتاہے کہ کوئی بھی باہوش مسلمان مرداورمسلم خاتون کبھی بھی دینی تعلیمات سے انحراف کرسکیں گے اورنہ ہی اسلامی حدودوقیودپھلانگیں گے کیونکہ واقعی یہ جسم تمہارا نہیںہے یہ خالق و مالک و رازق کی امانت ہے جو چند سانسوں، چند سالوں کے لئے امانت کے طور پر تمہیں سونپا گیا تو خود ہی سوچ لو دیانت کا تقاضا کیا ہے۔جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،جسم ہمارا تمہارا ہوتا تو خود کشی حرام نہ ہوتی۔ ہم سب اس امرکوخوب جانتے ہیں کہ کیا ہم پیدا ہونے کے لئے گھر، خاندان، شہر، ملک یہاں تک کہ مذہب کا بھی اختیار نہیںرکھتے ہیں۔کیا ہمیں اپنی شکل صورت، رنگ، جسامت، افتاد طبع پر کسی بھی قسم کا کوئی اختیار ہے؟کیا موت ہمارے اختیار میں ہے؟نہیں ہرگزنہیں توپھراس بے ہودگی کے غلیظ مقاصد کاہمیں ادراک کیوں نہیں؟ ’’میراجسم میری مرضی‘‘کی لعنت کوجان بوجھ کرپھیلایاجارہاہے اورکروناوائرس کی طرح کچھ عورتوں اورمسخرہ نمامردوں کو ہمارے معاشرے میں پھیلایاجارہاہے جبکہ ہمارے مذہب نے خواتین کو مکمل حقوق دئیے ہیں۔