یہ جمال کیا یہ جلال کیا‘ یہ عروج کیا یہ زوال کیا وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئینے کا خیال کیا میرؔ نے کیا غضب کی بات کہی تھی کہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا۔ تو صاحبو!یہاں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی۔سیاست پر تو بعد میں بات کریں گے پہلے ایک دلچسپ خبر سامنے آ گئی سکھر سے ایک جعلی ڈی جی نیب کو گرفتار کر لیا۔ میں اپنی ہنسی نہ روک سکا کہ اپوزیشن تو نیب کو جعلی کہتی ہے اور نیب کو حکومت کا عیب گردانتی ہے ادھر نیب کا ڈی جی اور وہ بھی جعلی۔ ملزم میاں فیاض کو انٹیلی جنس ونگ نے جوہر ٹائون سے گرفتار کیا اور اس کے پاس سے 44لاکھ روپے اور اسلحہ بھی برآمد ہو۔ا یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ جعلی پولیس افسر کئی مرتبہ پکڑے گئے ہیں۔ یہ تک خبر چھپی کہ کوئی چور پکڑا گیا تو پتہ چلا کہ حقیقت میں وہ سارجنت یا سپاہی نکلا اور پھر پولیس کی وردی میں بھی کوئی چور ہو سکتا ہے۔ اصل میں محکموں کو متحد و مستعد رہنا چاہیے۔ لوگ بھی ذرا جرأت کا مظاہرہ کر کے اس کی پہچان کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے مکان بنایا تو ایک گاڑی پر ایل ڈی اے سے تین چار لوگ آئے اور مکان کا نقشہ طلب کیا۔ میں شائستگی سے انہیں بیٹھنے کو کہا تو وہ سخت لہجے میں بولے جی آپ نقشہ لائیں۔ میں نے انہیں پھر نرمی سے کہا کہ جناب میرا اپنا بیٹا عمیر آپ کے محکمہ ہے اس لئے آپ کی تکریم کر رہا ہوں مختصر یہ کہ وہ ابھی آئے کہہ کر نکل گئے جب یہ بات میں نے اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔ ابو اس گاڑی کو تو ہم کب سے ڈھونڈ رہے ہیں آپ مجھے اطلاع کرتے۔ اب بتائیے یہاں کوئی بھی حکمران کیا کرے۔ ابھی مجھے مرغزار کالونی کے صدر محمد شہزاد چیمہ بتا رہے تھے کہ کالونی کی جگہ جو کہ قبرستان کے لئے مختص تھی کسی نے بڑی سکیم لڑا کر بیچ دی ۔ تفصیل سے اس کے بارے میں لکھوں گا مگر آپ اندازہ لگائیں یہ قبرستان کی جگہ بیچنے والے کو موت کہاں یاد ہو گی کیا کیا جائے لوگ کفن تک بیچ دیتے ہیں اور تو اور شہدا پر سیاست کا عمل کتنی دیدہ دلیری سے جاری و ساری ہے۔ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ بیچنے والوں نے کیا کچھ بیچا: میری قیمت وصول ہوتے ہی سعدؔ دشمن پہ مجھ کو وارا گیا اب آتے ہیں سیاست کی طرف ۔ ایک شخص کسی پارٹی کی شناخت ہوتا ہے مگر پارٹی پر زوال آتا ہے تو اسی شخص کسی دوسری پارٹی میں ظہور ہو جاتا ہے۔ ویسے اب تو کسی کے لئے کوئی قاعدہ یا اصول ہے ہی نہیں۔ جس کا جہاں سینگ سمایا گھس گیا یعنی پارٹی کے اصل لوگ تتر بتر ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھیے راجہ ریاض بیان داغ رہے ہیں کہ علی ظفر کی رپورٹ میں جہانگیر ترین کو کلین چٹ مل چکی ہے۔ رپورٹ سازشیں کرنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ مزید یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے کے پاس تفتیش کا کوئی جواز نہیں یعنی وہی تو نکلے ہیں مقتل کو سرخرو کر کے۔ ادھر میں کہتا ہوں دشمن اس کا آسماں کیوں ہو! ذرا دوسری طرف علی ظفر کا بیان بھی مضحکہ خیز ہے۔ فرماتے ہیں میری رپورٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ یعنی ان کی رپورٹ بے معنی ہے۔ سبحان اللہ یعنی وزیر اعظم پر دارو مدار ہے آپ کیسے لوگ ہیں اپنے کپتان کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ گویا آپ نے ہم خیال کو بھی خوش کر دیا اور یہ کہہ کر تلوار بھی ہم خیال پر لٹکا دی کہ ان کی حکومت میں بدعنوان کے لئے کوئی جگہ نہیں: کسی ضابطے میں تو زلفوں کو لائو نہ الجھا رہے ہو نہ سلجھا رہے ہو کئی باتیں ہماری سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں۔ مثلاً تعلیم کے حوالے سے مجھے بات کرنے کا اختیار ہے کہ تمام عمر اس سے وابستہ رہا۔کہا جا رہا ہے کہ امتحان تو ہر صورت میں لئے جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں سکول کھلیں نہ کھلیں۔ پڑھائی ہو یا نہ ہو امتحان تو ضروری ہیں۔ اس سے بڑا امتحان کیا ہو سکتا ہے کہ جو پڑھے بغیر دیا جائے یا لیا جائے۔آپ آن لائن کی بات کریں مگر جناب سب کے پاس یہ سہولت نہیں۔ کلاس اور وہ بھی بالمشافہ بہت ضروری ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ یہ صرف ان لوگوں کے لئے رہ گئی ہے جو تمام سہولتوں کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے چیخنے چلانے سے بھی کچھ نہیں ہوا ہے اور نہ ہو گا ۔میں بچوں کو گلی محلوں میں کھیلتے اور شور مچاتے دیکھتا ہوں کہ کہ ان کا یہی مستقبل ہے۔ جلوس‘ جلسے اور مارکیٹوں میں رش سب درست ہے۔ چلیے چھوڑیے لکھوں گے پڑھو گے تو ہونگے خراب‘ اگر بغیر کلاس اور پڑھائی کے امتحان لینے کا عمل درست ثابت ہو گیا تو سکولوں سے نجات مل جائے گی۔ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ چلیے ایک دفعہ پھر سیاست کی بات کرتے ہیں مگر تعلیم سیاست سے باہر ہرگز نہیں۔ ایسے ہی ظہور نظر یاد آ گئے: وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر آخری خط میں اسے میں نے لکھا کچھ بھی نہیں ان دنوں صرف سیاستدان ہی آزاد ہیں ،کوئی کانفرنس کر رہا ہوتا ہے، وبا کو بھی معلوم ہے کہ کہاں اثر انداز ہونا ہے یہی نہ ہو کہ وبا کو اپنی پڑ جائے۔ سیاستدانوں کے مقابلے شاعر ادیب بے چارے زیادہ سہمے ہوئے ہیں کوئی تقریب اور کوئی اجلاس منعقد نہیں ہو رہا۔ سب گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں یا پھر سوشل میڈیا ہے۔ کل ہی ہمارے قادر الکلام شاعر جاوید قاسم کا فون آیا کہ یار آپ ہمارا حال چال ہی پوچھ لیا کرو۔ جاوید کی باتوں نے سچ مچ مجھے اداس کر دیا۔ اس نے جانے والوں کا تذکرہ کیا میں نے بات کا رخ موڑ کر اس کی شاعری کی بات شروع کر دی۔ اسے تازہ شعر سنانے کو کہا۔ کمال کے اشعار اس نے سنائے ایک آپ بھی پڑھ لیں: وہ خدوخال میں ہے میرؔ کے دلی جیسا وہ اسے شعر میں باندھے جسے اردو آئے میں نے اسے بہت داد دی مگر سوچنے لگا کہ اسے کیسے اردو آئے کہ اردو کا مستقبل تو مخدوش نظر آتا ہے۔ پوری دیانتداری سے کہہ رہا ہوں کہ گو نہ شرمندگی پکڑ لیتی ہے کہ ہم سے جعلی انگریزوں نے ہماری شناخت اور پہچان چھین لی۔ قائد کی خواہش اور اصرار کے باوجود انہوں نے اردو کو رابطے اور دفتر کی زبان نہ بننے دیا اور تو اور یہ آئین کی توہین کے بھی مرتکب ہیں۔ میری قومی شناخت اولین سطح پر یہی زبان ہے ۔کیا ہم واقعتاً سوچ سے عاری ہو چکے ہیں!کیا یہ احساس کمتری ہمارا قومی المیہ نہیں ہے۔ چلیے جاوید قاسم ہی کے ایک اور خوبصورت شعر پر کالم کو ختم کرتے ہیں: میرے جینے کی ایک صورت ہے میرے سینے سے دل نکل جا ئے