امریکی سینٹر رک سکاٹ کے اس بیان سے کہ چین سے منگوایا جانے والا گٹر کے پانی سے کاشت شدہ لہسن امریکیوں کی صحت کے ساتھ معیشت اور قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے، میرا ذہن بے اختیار اپنے ملک کی طرف چلا گیا ،جس کے بارے میں کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق اس زرعی ملک کو کبھی پیاز ٹماٹر اور لہسن بھی ہمسایہ ملکوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ٹماٹر انڈیا سے منگایا جاریا ہے، کبھی آلو انڈیا سے آرہے ہیں، کبھی یہاں پر ایران کا کیلا فروخت ہوتا نظر آتا ہے ہم بھی چین سے پھل اور سبزیاں درآمد کرتے ہیں،یہ سبزیاں کس طرح کے پانی میں اگائی جاتی ہیں، ہمارے اہل اختیار کو اس سے کیا غرض کہ ان کے دسترخوانوں تک آرگینک سبزیاں اور پھل رسائی پاتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک الگ مسئلہ ہے سردست تو مسئلہ درپیش یہ ہے کہ زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی پاکستان میں روز مرہ استعمال کی سبزیاں بہت مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ پاکستان 79 ملین ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس میں سے 28 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت کے اور 18 ملین ایکڑ رقبہ خالی پڑا ہے۔ چین نے اپنے صحرا سرسبز کر کے وہاں سے بھی سبزیاں اور پھل پیدا کر لیے لیکن ہم ایسا نہ کر سکے ہمارے صحرا تھر ،تھل اور چولستان کے نصیب نہ کھلے کہ یہاں کے زرعی سائنسدان یا حکومتیں ان بنجر صحرائی رقبوں پر توجہ کر کے انہیں قابل کاشت بناتیں۔ جوجدید ٹیکنالوجی چین نے اپنے صحراؤں کو زرخیز زمین میں بدلنے کے لیے استعمال کی پاکستان وہ جدید زرعی ٹیکنالوجی استعمال کر کے اپنے ناقابل کاشت رقبے کو استعمال میں کیوں نہ لا سکا یہ پاکستان کی ناکامی ہے۔ زراعت کے نام پر پاکستان میں کئی قومی ادارے کام کر رہے ہیں لیکن آج تک ان اداروں سے ہمیں کبھی ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ ہمارے زرعی سائنسدانوں نے کم زمین سے زیادہ مقدار میں کھیت اگانے کا کوئی کامیاب تجربہ کیا ہو۔ کم از کم پاکستان اپنی ضرورت کا لہسن پیاز آلو ٹماٹر تو پیدا کر سکتا تھا۔2022 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان میں پیاز اور ٹماٹر کا 80 فیصد رقبہ تباہ ہو گیا تھا۔قلت کے اس موسم میں درآمد شدہ پیاز 300 روپے کلو تک ملتا رہا۔ اس وقت صحیح معنوں میں غریب سے روٹی کے ساتھ کھانے والی آخری شے بھی چھن گئی۔ غریب کی کی کٹیا میں پیاز ہے تو بہت کچھ ہے۔ اگر گھی سبزی دالیں نہیں ہیں تو بھی کونڈی میں پیاز کوٹ کے چٹنی بنا ئی جاسکتی ہے۔اگرچہ پیاز بہت آسانی سے اگائی جانے والی ایک ایسی سبزی ہے جو ہر گھر میں اگائی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے پیاز اس وقت بھی 150 روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے جو غریب کی جیب ہر بہت بھاری پڑتا ہے۔پیاز ٹماٹر کی قلت اور بہت مہنگے داموں فروخت کے عرصے میں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کس طرح کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے۔ لوگ کس طرح گھروں میں گملوں اور گرو بیگز میں اپنی ضرورت کی سبزیاں اگا سکتے ہیں۔گرو بیگز کھاد کی خالی بوریوں کو کہتے ہیں جن میں میں کھاد اور مٹی بھر کر انہیں بڑے گملے کی شکل دی جاسکتی ہے۔آج کال ان گرو بیک میں بھی سبزیاں اگائی جا رہی ہیں۔ صاف پانی سے اگنے والی ان آرگینک سبزیوں کی غذائی اہمیت بھی زیادہ ہے ۔ کچن گارڈننگ کی مفید ٹریننگ گلی محلوں میں ہونی چاہیے ایک ایک محلے میں ایسا سینٹر بنانا چاہیے لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی زرعی ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی جس میں اس طرح کے اقدامات کرنا ضروری سمجھے جائیں۔چین کی آبادی کے لحاظ سے قابل کاشت رقبہ بہت کم ہے۔ اپنی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے، اور سبزیاں پھلوں میں خود کفیل بننے کے لیے چین میں جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ساتھ ورٹیکل گارڈننگ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔یعنی زمین کے پھیلاؤ پر سبزیاں نہیں اگائیں بلکہ سبزیاں اور کچھ اقسام کے پھل کاشت کرنے کے لیے عمودی انداز کے کھیت اگائے ہیں۔چین نے ورٹیکل گارڈننگ کے حوالے سے دنیا کے لیے ایک مثال پیدا کی ہے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف کم رقبے پر اپنے ملک کی سبزیوں اور پھلوں کی ضرورت پوری کی بلکہ چین دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے ۔ایک سروے کے مطابق چین سے امریکہ 4.6 بلین ڈالر کے سبزیاں اور پھل منگواتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں 90 فیصد وٹامن سی چین سے آنے والے پھلوں سے حاصل کیا جاتا ہے، 43 فیصد مشروم چین سے آتی ہیں، 70 فیصد سیب کا جوس چین سے آنے والے سیبوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔زرعی مصنوعات کی درآمد کے حوالے سے دیکھا جائے تو چین بھی امریکہ سے گندم کپاس اور سویا بین منگواتا ہے لیکن دونوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو امریکہ چین سے زیادہ زرعی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے چین کے انڈور عمودی کھیت ایک حیران کن تجربہ ہیں۔چین میں 20 منزلوں پر موجود ایک ایسا سٹور بنایا گیا ہے جو دراصل عمودی کھیت اگانے کی ایک کامیاب تجربہ گاہ ہے جہاں پر سبزیوں اور پھلوں کو مصنوعی روشنی کے ساتھ اگایا جاتا ہے ان سبزیوں اور پھلوں کے اگانے میں مٹی کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس طرح کے عمودی کھیت اب دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی تجربہ کیے جا رہے ہیں انڈونیشیا میں کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔امریکی ریاست شکاگو میں بھی چین کی طرز پر عمودی کھیت اگانے کا تجربہ کیا جا رہا ہے کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی آبادی کے لیے کھانے پینے کا سامان پیدا کرنے میں خود کفیل نہیں ہو جاتا۔اس کالم کا محرک امریکی سینیٹر رک سٹارٹ کا بیان ہے کہ سیورج کے پانی سے کاشت کیا ہوا لہسن امریکہ کی صحت کے لیے خطرہ ہے۔جن ملکوں میں کوئی ویژن کار فرما ہوتا ہے ایسی خبر وہاں سے ہی آسکتی ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں سینٹر ہوں ، ممبران اسمبلی یا کسی بھی طرح حکومتی بندوبست میں شریک افراد ہو ان کی ساری سوچ پیسہ بنانے اور اپنی جیبیں بھرنے کے گرد گھومتی ہے ، سو وہ زیادہ سے زیادہ یہی یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کسی طرح فلاں پروجیکٹ کا حصہ بن کر اپنا کمیشن کھرا کریں۔ یہ ہے فرق پاکستان اور امریکہ کے کار حکومت میں مشغول افراد کی سوچ اور ویژن کا۔۔اور یہی فرق سیاست سے سماج، معیشت سے معاشرت اور فرد کی انفرادی سوچ سے لے کر اجتماعی سوچ کے زاویوں اور ان سے بننے والے منظر نامے پر دیکھا جا سکتا ہے۔