ناصر محمود کھوسہ،ملک کی اعلیٰ ترین سول سروس کے از حد معزز و محترم ممبر رہے،ان سے براہِ راست نیاز مندی اور فیض یابی کا موقع تو اتنا میسر نہ آسکا،البتہ،انکے ہم دمِ دیرینہ --- سیّد شفیق حسین بخاری اور خضر حیات گوندل ،جو کہ یقینی طور پر اسی معتبر سروس کا اہم ترین حصہ رہے ، کے توسط اور تو سل سے ان کا معترف رہا،شفیق حسین بخاری ، سیکرٹری اوقاف ہوئے توسال میںدو ، ایک مرتبہ، داتاؒ دربار میں ’’لنگر پارٹی‘‘کا اہتمام کرتے،جس میں اپنے قبیل کے افسران اوربالخصوص لاہورمیں خدمات سر انجام دینے والے ذمہ داران، اِس سعادت سے بہر ہ مند ہوتے،اوّل اوّل ایسی ہی کسی ایک مجلس میں ناصر محمود کھوسہ صاحب کو دیکھا،سفید کاٹن کی سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس،جسکے کالرسے سادگی قدرے نمایاں ہورہی تھی ،ویسے تو شفیق حسین بخاری صاحب بھی اپنی بودو باش اور طرزِ زیست میں،ایسے ہی درویشانہ اوصاف و کمالات کے حامل ہیں،تاہم وہ تو’’نور شاہی سادات‘‘ کے چشم و چراغ اور بطل ِجلیل ہیں،فقر و غنا ان کا خاندانی طرہ امتیاز ہے اور انہیں تو ایسا ہی ہونا چاہیے،لیکن یہ تو ڈیرہ غازی خان کے کھوسہ خاندان کے فردِوحید تھے---پنجاب کے چیف سیکرٹری ہوئے ،تو ایک دِن شفیق بخاری صاحب کی معیت میں داتاؒ دربار حاضر ہوئے،ہدایت یہی تھی کہ آمد کا اعلانِ عام نہ ہو،اورنہ ہی سرکاری اور دربار ی ہر کارے’’ہٹو ، بچو‘‘ کی صدائیں بلند کریں،تاکہ یکسوئی،انہماک اور عجزو نیاز سے حاضری کا اہتمام ہوسکے،مگر ایسے منصب داروں کی آمد پر،ایسا کہاں ممکن رہتا ہے،چنانچہ خدام و حشم کا لا ئو لشکر طبیعت پر بوجھ بنا،لیکن ضبط کا پیماں پیش ِ نظر ر ہا کہ بارگاہ ہی ایسی تھی اور رسمی حاضری کے ساتھ ہی واپسی ہوگئی ۔ موصوف چونکہ اعلیٰ قسم کے خطاط اور از حد خوبصورت قلمکار ہیں،ویسے توعصرِ رواں میںاب خطاطی اور کتابت جیسے فنون معدوم ہوئے جاتے ہیں،اگر کہیں دستیاب ہیں،تو بھی سرکار ودربار کو اِس سے کوئی خاص نسبت نہیں رہی، بالعموم گرائمر سکولوں کے فارغ التحصیل اور اے۔لیول اور او۔لیول کے سند یافتہ ہی،ان اہم سرکاری منصبوں پر براجمان ہوتے ہیں،جنکو بعض اوقات اُردو میں دستخط کرنا بھی ناگوار ہوتا ہے،ایسے میں،کسی کلیدی عہدے پہ متمکن،ایسی شخصیت،جوایسے پاکیزہ فن میں تاک ہو،ماضی میںجس کی مشق بھی باوضو ہو کرکی جاتی،بڑی غنیمت تھی۔ہماری سرکاری اور دفتری خط و کتابت انگریزی زبان میںہے،اگرچہ سپریم کورٹ اپنے واضح احکام کے ذریعے اردو کی ترویج اور تنقیذ کا حکم فرماچکی،تاہم اس پر عملد رآمد ہنوزتشنہ--- صرف محکمہ اوقاف و مذہبی امور کو یہ اعزاز یا استثنیٰ میسر ہے ،کہ ان کے دفتری امور اور فائل ورک اردو میں انجام پاتا ہے ۔ سال 2002ئ2001-ء میں کھوسہ صاحب سیکرٹری برائے گورنر پنجاب ہوئے ، تو ہمارے محکمے کی طرف سے ارسال کردہ تلخیص برائے گورنر یعنی"Summary" وغیرہ ،جو جناب گورنر کے لیے جاتی ، تو اُس پر گورنر کی طرف سے احکام سیکرٹری ٹو گورنر ہی ثبت فرما تے،اور وہ ان سمریوں کے جواب یوں آراستہ فرماتے کہ گویا نوٹنگ شیٹ پر’’خطِ نستعلیق‘‘کے لیے پہلے مسطر تیار کیا گیا ہو ۔ شفیق بخاری صاحب ہی کی وساطت سے دو برس قبل ، قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کے امور اور کتابت و خطاطی کے رموزکی بابت استفسار کیا گیا،تو قواعد و ضوابط کی تفصیل کے ساتھ قرآن پاک کے رجسٹر ڈ پروف ریڈر اور عربی زبان کے ماہر ابو الخیر محمد زوار حسین نعیمی کو اس معاونت کے لیے پیش کردیا،یہ ربط مستقل نیاز مندی کا ذریعہ بنا اور پھر17 مارچ 2022ء کو آپ کی خطاطی سے آراستہ 392 صفحات پر مشتمل’’عطیۂ فیض‘‘موصول ہوا۔جو قرآن ِ پاک کی 24مکمل سورتوں کے ساتھ ،منتخب قرآنی آیات و ترجمہ، درود شریف ، اسمأ الحسنی، اسمأ النبی ؐ، دعائوں،درود ِ تنجینا، سیّدُ الاستغفار سے آراستہ ہے،اختتام سے قبل چند حکمت مأب نصائح ،جو حضرت لقمانؓ نے اپنے بیٹے کو فرمائے، درج ہیں: i۔اگر تم نما ز میں ہو،تو اپنے دل کی حفاظت کرو۔ii۔اگر تم لوگوں کی مجلس میں ہو، تو اپنی زبان کی حفاظت کرو۔iii۔ اگر لوگوں کے گھروں میں ہو، تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کر iv۔اگر لوگوں کے کھانے پر ہو، تو اپنے معدے کی حفاظت کر v۔دو چیزوں کو ہر گز یاد نہ رکھ:لوگوں کی تیرے ساتھ بُرائی اور لوگوں پر تیرا احسان ۔vi۔دو چیزوں کو ہر گز نہ بھو ل :اللہ اور آخرت کے دن کو۔اختتام بال جبرئیل سے’’ حال و مقام‘‘ کے چند اشعار پر ہے ، لیکن اس سے قبل مصری شاعر عبد الناصر کا شعر تحریر کر کے، صراحت کی کہ عربی کے اس شعر کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اِس میں میرے والدین کا نام آتا ہے ۔ اَلشّمسُ وَالْبَدْ رُ مِنْ آیاتِ قُد ْرَتَہٖ وَالبَرُّوَالْبَحْرفَیْضٌ مِن عَطَایَاہُ اس نسخۂ عظیمہ کے’’انتساب‘‘کی تحریر یوں ہے : ’’ بصد عجز و نیاز اور بہ ہزارادب و احترم والد گرامی سردار فیض محمد کھوسہ صاحب اور والدہ ماجدہ عطیہ فیض صاحبہ کے نام،اگرچہ آپ کو جدا ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ، مگر ہمیں یقین ہے کہ آپ دونوں ایک بہت بہتر جگہ پر موجود ہیں ۔ کیونکہ اس دوران،ایک لمحہ کے لیے بھی،ہم سب،آپکے فیض، آپ کے عطیات،آپکی محبت،دُعا اور شفقت سے محروم نہیں رہے۔‘‘ اور پھر پیش لفظ کے ضمن میںبھی یہ لکھ کر،ایسی محبت اور نیاز مندی پیش کی کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنے والدین کے لیے ایسے ہی حقیقی اہتما مات اورکارِ خیر کی توفیق عطا فرمائے :’’ یہ کاوش میرے والدِ محترم سردار فیض محمد خان کھوسہ صاحب مرحوم اور والدہ محترمہ عطیہ فیض صاحبہ مرحومہ کے ایصال ِ ثواب کے لیے ہے ‘‘اسی طرح اندرونی سرِورق کی پشت پر اپنے بچوں کو نصیحت کی کہ :’’یہ صریر خامہ میرے بچوں محمد، منیزہ اور مصطفی کے لیے ایک تحفہ ہے ، تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو ‘‘ فہرست سے قبل ،ابتدائی صفحات اُمّتِ مسلمہ کے عظیم اور نامو ر مشاہیر کے رشحات ِ عنبریہ سے آراستہ ہیں، جن میں ابتدأ اقبال سے : چُومِی گُویم مُسلمانم بَلرزَمْ کہ دانم مُشکلات ــ’’لَا الٰہ رَا‘‘ (ترجمہ )میں خود کو مسلمان کہتے ہوئے کانپ جاتا ہوں ۔ کیونکہ مجھے " لاالٰہ" کی مشکلات کا بخوبی علم ہے ۔ تُوغَنی اَز ہر دو عَالم مَن فقیر روزِ محشر عُذر ہَائے من پذیر درحسابَم رَا تو بَیْنی نَاگُزِیر اَز نگاہِ مُصطفٰےؐ پِنْہابگیر (ترجمہ )تو غنی ہے دونوں جہانوں کا اور میں فقیر ہوں ، روز قیامت میرے پا س کوئی بہانہ نہیں ہے ، میرا حساب دیکھنا اگر تیرے لیے ناگزیر ہی ہو ، تو حضورؐ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھ کر حساب لینا ۔ مولانا عبد الرحمن جامی کی یہ معروف رباعی بھی : غَرِیْبَم یارسول اللہ غَرِیْبَم ندارم دَر جہاں جُز تو حبیبم بریں نازم کہ ہستم اُمّتِ تو گنہگارم و لیکن خوش نصیبم (ترجمہ )یار سول اللہ ! میں غریب و بے نوا ہوں، کائنات میں آپ ؐکے سوا میرا کوئی محبوب نہیں، مجھے اس بات پر ناز ہے کہ میں آپؐ کی اُمت سے ہوں ،گنہگارہوں لیکن خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں ۔ اور پھر مولانا جلال الدین رومی کا شعر درج کیا ہے: ای کہ دَرمسجد روی بہر سجود سربجنبد دِل نجنبد ایں چہ سود اے شخص کہ تو مسجد جاتا ہے، سجدوں کے لیے تیرا سر تو حرکت کرتا ہے لیکن دل میں کوئی ہلچل نہیں، کیا حاصل--- ؟ ازاں بعد ،روہی کے عظیم صوفی بزرگ اور سرائیکی زبان کے رومی و جامی ، ہیوم اور ملک الشعراحضرت خواجہ غلام فریدؒ کا یہ فرمان ذیشان ، جو میں سمجھتا ہوں ہر صاحبِ سطوت اور اہلِ منصب کے ہمہ وقت پیش ِ نظر رہنا چاہیے ،جو انہوں نے والی ریاست بہاولپور ، نواب صادق محمد رابع کو اُس وقت تحریر کیا ، جب وہ اپنے کسی ملازم سے ناراض ہوکر، اُس سے سختی کررہا تھا: زِیر تھی، زَبر نہ تھی مَتاں پیش آوی