پچھلے ہفتے جو کرنٹ افیئرز زیادہ زیر بحث رہے‘ ان میں سب سے زیادہ کرنٹ والا معاملہ عورتوں سے ریپ کا تھا۔ کہا گیا کہ مختصر لباس یا مناسب کپڑے اس کے ذمے دار ہیں۔ بعینہ یہی الفاظ نہیں تھے لیکن جو مطلب نکلا یا نکالا گیا یا جو بات لوگوں کی سمجھ میں آئی‘ وہ یہی تھی۔ اسے روایت بالمعنے سمجھئے۔ مختصر لباس پاکستان میں تو کہیں نظر نہیں آتا۔ ایران میں بھی مختصر لباس والی کوئی نہیں۔ افغانستان میں بھی یہی ماجرا ہے۔ ہاں بھارت میں مختصر لباس پہننے والی خواتین بڑی تعداد میں بہت ہیں۔ اب تو بنگلہ دیش میں بھی۔ پاکستان میں مختصر لباس یعنی منی سکرٹ یا اس سے ملتے جلتے دیگر ملبوسات پہننے والی عورتیں ضرور ہوں گی لیکن ان ڈور یعنی اپنے پوش بنگلوں میں یا فائیو سٹارز ہوٹلز میں نظر آ جاتی ہوں گی۔ سرعام تو ہمارے ہاں کسی ایسی کا دیدار ممکن نہیں۔ البتہ نامناسب لباس والی ضرور ہوں گی مگر محدود علاقوں میں یعنی ایسی پوش سوسائٹیوں میں جہاں حفاظتی انتظامات اور ریڈ زون کے برابر ہوا کرتے ہیں۔ وہاں ریپ نہیں ہوتے‘ اگر ہوں تو معاملہ باہمی طور پر نمٹا لیا جاتا ہے اور بات دب جاتی ہے۔ پھر یہ ملک بھر میں ہونے والے ریپ کے کیس جو پہلے کے مقابلے میں خاصے بلکہ خاصے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں انہیں کس کھاتے میں رکھا جائے۔ یہ مسئلہ حکومت نے اٹھایا اور فارمولا بھی اسی نے پیش کیا۔ اشتہاری زبان میں لکھا جائے تو فارمولا یوں ہوگا‘ جہاں نامناسب لباس‘ وہاں ریپ۔ اہل منبر و محراب نے بلاتاخیر حکومتی فارمولے کی تائید کردی۔ بہرحال‘ اب یہ بتانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے کہ صرف سال گزشتہ یعنی 2020ء میں (نئے سال کی گنتی خاتمہ سال پر ہی آئے گی) جن 2960 بچوں اور بچیوں سے وہ واردات کی گئی جیسے ریپ کہا جاتا ہے۔ (ان میں سے بہت سارے تو قتل بھی کردیئے گئے) ان کا لباس مناسب کی ذیل میں آتا ہے یا نامناسب کی؟ دیہی علاقوں میں وڈیرے اور بااثر لوگ کثرت سے عورتوں کا شکارکرتے ہیں۔ اپنے شکار کا انتخاب وہ نامناسب لباس کی بنیاد پر ہی کرتے ہوں گے۔ ڈاکو جن گھروں میں گھس کر دیگر مال اسباب لوٹ لیتے ہیں۔ بعض اوقات ان گھروں کی خواتین کا ریپ بھی کر ڈالتے ہیں تو ان ڈاکوئوں کو یہ اطلاع کیسے مل جاتی ہے کہ فلاں گھر میں خواتین نے نامناسب لباس پہن رکھا ہے‘ چلو چل کر ہلہ بول دیں۔ پاکستان میں پہلی بار ایلیٹ کلاس کی بلاشرکت غیرے حکومت بنی ہے۔ ایلیٹ کلاس کی سوچ اور فکر غالب ہے۔ اہل منبر و محراب کی اکثریت بالمعموم پوری تاریخ میں اشرافیہ کے اتحادی رہی ہے لیکن تاریخ اور عوام نے انہیں کبھی عزت نہیں دی۔ عزت کا مقام امام ابوحنیفہؒ‘ امام احمد بن حنبلؒ جیسی اشرافیہ مخالف ہستیوں کو ہی ملا ہے۔ اگر آج یہ حضرات اشرافیہ کی سوچ کی حمایت کر رہے ہیں تو نصیحت کی بات نہیں۔ یہ سطریں لکھتے لکھتے آج کے اخبارات کے صفحہ آخر پر آخری کالموں میں اوپر سے نیچے بالکل آخر میں یہ مختصر خبر شائع ہوئی ہے کہ خانیوال میں ایک چار سالہ بچی ریپ کے بعد قتل کردی گئی۔ یہ خبر ہر روز آتی ہے اور نئی قومی پالیسی کے تحت آخری صفحے پر آخری کالموں میں اوپر سے نیچے کو بالکل آخر میں غیر نمایاں بہت مختصر سی چھپتی ہے۔ ابھی غنیمت ہے کہ کم سے کم چھپ تو جاتی ہے۔ نئی قومی پالیسی میں کل کلاں ترمیم کے بعد ایسی غیر مناسب خبروں کی اشاعت سرے سے ممنوع بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ ایسی خبریں خبر نہیں کونے میں پڑے ہوئے سنگ فارا کے ریزے ہیں‘ صحافت کا آنگن ان سے پاک صاف رہنا چاہیے اور بس ایسی اچھی اچھی دانش والی خبریں اور بیانات ہی چھپنے چاہئیں کہ ریپ کی ذمہ دار خود ریپ ہونے والیوں کا نامناسب لباس ہے یا پھر یہ کہ مہنگائی کہاں ہے؟ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے‘ کوئی بھوکا مر رہا ہے تو ذمہ دار اس کی اپنی بھوک ہے۔ ٭٭٭٭ سینیٹر عثمان کاکڑ کی اچانک وفات جن حالات میں ہوئی‘ انہیں شہید کہے بنا چارہ نہیں۔ شائستہ مزاج‘ نپے تلے فقرے بولنے والے عثمان بلوچ محبوب خلائق تھے۔ آئین اور جمہوریت کے عقائد سے وابستہ ہونے اور محروموں اور مظلوموں کا ساتھ دینے کی وجہ سے محبان وطن انہیں غدار وطن قرار دیتے تھے۔ کچلاک جیسے چھوٹے سے شہر میں ان کا جنازہ ہوا اور لاکھوں افراد نے اس میں شرکت کی۔ کراچی سے کچلاک تک ان کی میت بذریعہ سڑک پہنچی اور سینکڑوں میل کے اس سفر میں ہر جگہ سوگواروں کے ہجوم نے اکٹھا ہو کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ظلمات میں ان کی روشن پیشانی تاریخ میں ہمیشہ چمکتی رہے گی۔ فی الوقت ان کا تعارف بھلے ہی غدار کا رہے۔