ہندوتوا، اکھنڈ بھارت یا برصغیر پر صرف ایک قوم کا حقِ وطنیت، یہ سب ایک ہی تصور کی مختلف شکلیں ہیں جو ہندوستان میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ روپ سنوارتی رہی ہیں۔ آغاز میں تو یہ صرف ایک رومانوی سا خواب تھا کہ اس دھرتی پر ایک دن ایسا بھی طلوع ہو گا، جب دیوتائوں کے اس دیش میں انہی کے سیوکوں کی ویسے ہی بادشاہت قائم ہو گی جیسی 321 قبل مسیح سے 185 قبل مسیح تک ’’موریا‘‘ حکمرانوں کی 136 سالہ سلطنت تھی یا پھر 319 عیسوی سے 467 عیسوی تک ’’گپتا‘‘ خاندان کا 148 سالہ دورِ اقتدار تھا۔ ہندوستان کے کٹر ویدانتی ہندوئوں کے دماغ میں یہ 284 سال ایسے ہیں جیسے پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یہ ہندومت کی وہ ’’عظمتِ رفتہ‘‘ ہے جس کی ’’نشاۃِ ثانیہ‘‘ کے وہ خواب مسلسل دیکھتے چلے آئے ہیں۔ کئی ہزار سال کی معلوم تاریخ میں یہی 284 سال ہی ہیں جب ہندوستان کے مقامی خاندانوں (اگرچہ کہ یہ بھی بحث طلب بات ہے کیونکہ ان کے بھی آباء و اجداد باہر ہی سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے) کی حکومت تلے پورا ہندوستان متحد ہوا تھا۔ ان میں سے بھی اگر 268 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک 36 سال اشوک کی ’’بدھ‘‘ حکومت کو نکال دیا جائے تو بحیثیت مجموعی پورے برصغیر پر ہندو بادشاہت کا عرصہ صرف اور صرف 248 سال ہی بنتا ہے۔ راجوں، مہاراجوں، راجواڑوں کا بکھرا ہوا قدیم ہندوستان جس کی پہچان زیادہ سے زیادہ دیو مالائی داستانوں میں کشمکش ِ اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ایک سرزمین سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ یہاں پر مہا بھارت کے بڑے بڑے یُدھ (لڑائی) ہوتے رہے ہیں، رام چندر اور راون ہے، کرشن ہے، کرن ارجن ہیں، کورو پانڈو ہیں، ایک بکھرا ہوا رنگین ہندوستان جس میں ایک مرکزیت والے ہندوستان کا اقتدار ہندوئوں کے پاس صرف 248 سال کے محدود عرصے تک ہی رہا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی یہاں سکندر آیا تو کہیں سفید ہن نازل ہوئے، انڈوپارتھین تھے یا پھر مسلمانوں کی وہ لازوال سلطنت دِلّی جس کی بنیاد قطب الدین ایبک نے 25 جون 1206ء میں رکھی تھی اور وہ 1857ء تک 651 سال تک یہاں قائم رہی۔ ہندوتوا …دراصل بھارت میں بسنے والے شدت پسند ہندو کا ایک ایسا خواب ہے جس کو جدید نظریاتی تصور میں ڈھالنے کے لئے بہت سارے لوگوں نے حصہ ڈالا۔ ساوریکر اور گول وارکر چونکہ سیاسی طور پر خاصے اہمیت کے حامل تھے اس لئے ان کا نام بہت چمکا اور آج بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن ان دو سو سالوں میں جو شخص اپنے کام اور علمی ورثے کی بنیاد پر مندر کے کسی کلس کی طرح نظر آتا ہے وہ دین دیال اپھدیائے ہے۔ جب وہ ایک ہندو مشنری کالج سناتن دھرم کالج میں 1937ء میں زیر تعلیم تھا، تو اس کی ملاقات راشٹریہ سیوک سنگھ کے بانی ہیگواڑ گول وارکر سے ہوئی اور اس نے تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد 1942ء میں آر ایس ایس میں ہمہ وقت کام شروع کر دیا، جس کا ہیڈ کوارٹر ناگپور میں تھا۔ اس تنظیم کے تحت ناگپور میں ایک چالیس روزہ ’’چلّا‘‘ ہوتا تھا جس میں ’’سنگھ تعلیم اور عسکری ٹریننگ‘‘ دی جاتی تھی۔ وہ اس قدر ذہین نکلا کہ اس چالیس روزہ تعلیم کے بعد ہی اسے تاحیات ’’پرچارک‘‘ بنا کر لکھم پور ضلع کا انچارج بنا دیا گیا جہاں سے وہ ترقی کرتا ہوا ایک ایسے مقام پر جا پہنچا جو آج تک راشٹریہ سیوک سنگھ یا جن سنگھ آئیڈولوجی میں کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکا۔ وہ لکھنؤ سے مسلسل ماہانہ ’’راشتر دھرم‘‘ اور ہفتہ وار ’’پنچانہ‘‘ نکالتا۔ جب 1951ء میں پرشاد مکرجی نے بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد رکھی تو وہ ہندوتوا قومیت کی علمبردار اس تنظیم جن سنگھ کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔ اپھدیائے نے اپنی تحریروں میں انتہائی تفصیل سے بتایا ہے کہ ہندو راج قائم کرنے کے لئے ایک جذباتی نعرے کی بجائے ایک معاشی و معاشرتی ماڈل کی اشد ضرورت ہے جو جدید دنیا میں رائج کیپٹل ازم اور سوشلزم کے نظام ہائے کار کا مقابلہ کر سکے۔ اس نے اپنے اس نظام کا نام ’’جامع انسانیت‘‘ (Integral humanism) رکھا۔ دین دیال کے اس تصور سے پہلے ہندو قوم پرستی ایک متعصب عسکری تصور تک محدود تھی۔ لیکن دین دیال نے اسے پورے ہندوستان کے باقی گروہ کے ساتھ چلنے کا راستہ دکھایا جس کے نتیجے میں جن سنگھ جیسی کٹر مذہبی تنظیم نے گاندھی جیسی سیکولر سوچ والی ’’سرودیا تحریک‘‘ سے اتحاد بنایا جو جے پی نارائن کی قیادت میں کام کر رہی تھی۔ اس شخص کے نظریات اور کام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ نریندر مودی نے 2016ء سے لے کر اب تک لاتعداد اداروں کا نام اس کے نام پر رکھا ہے اور مغل سرائے کا وہ ریلوے سٹیشن جہاں اسے ٹرین سے دھکا دے کر مار گرایا تھا اس کا نام بھی اس کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ دین دیال نے قدیم ہندوتوا کے تصور کو تبدیل کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقوام کو بھی جیسے ہیں ویسے ہی قبول کر کے انہیں ایک ہندو نیشنلزم پر قائل کرنا چاہئے۔ یعنی مسلمان، سکھ، عیسائی اور پارسی وغیرہ سب اپنے اپنے مذہبی عقائد پر قائم رہیں لیکن بھارت دیش، دھرتی ماتا اور ہندو نسلی برتری کا تصور ان پر غالب رہے۔ گذشتہ تیس سال یہ تصور بھارتی سیاست میں پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا اور بی جے پی کی ساری سیاست، مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کو متحد کرنے تک محدود رہی۔ دین دیال فلسفہ کو شدت پسندی کی آگ میں جلا دیا گیا، مسلمان نفرت کا الائو روشن رہا۔ لیکن گذشتہ دنوں جب نورپرشرما اور کوہن جندال کے گستاخانہ ریمارکس پر جیسے ہی اُمتِ مسلمہ خصوصاً عرب دنیا میں شدید ردّعمل آیا تو ہندوتوا قوم پرست سیاست کو پہلی دفعہ اس بات کا احساس ہوا کہ اگر یہ معاملہ ذرا سا بھی آگے بڑھ گیا تو پھر اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہاں گذشتہ چودہ سو سالوں سے ’’غزوۃ الہند‘‘ کا ایک نظریاتی پسِ منظر موجود ہے اور صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک سب کے سب اس عظیم معرکے میں شرکت کی شدت سے آرزو رکھتے رہے ہیں۔ اس ردّعمل کے فوراً بعد کتابوں اور رسالوں سے مٹی جھاڑی گئی اور موجودہ متعصب سیاست سے دُور رہنے کیلئے دین دیال کے تصور ’’جامع انسانیت‘‘ ، کو سامنے لایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اور اس وقت ان کے نظریاتی پرچم بردار شری رام مدھو نے بھارت کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو یہ پیشکش کی ہے کہ اگر وہ تین بنیادی تصورات سے دستبردار ہو جائیں تو پھر وہ ہندوتوا قومیت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ پہلا تصور یہ ہے کہ آپ اپنے علاوہ باقی تمام مذاہب کو ہر گز کفر نہ کہیں۔ کیونکہ دنیا کے تمام پیغمبر یا مذہبی شخصیات انسانیت کی سطح پر برابر ہیں اور تمام الہامی کتابیں برابر حیثیت کی حامل ہیں۔ دوسرا اہم تصور جسے ترک کرنے کیلئے کہا گیا ہے وہ مسلم اُمہ کا تصور ہے۔ رام مدھو نے کہا ہے کہ مسلمان خود کو تمام دنیا میں بسنے والے مسلمانوں سے الگ کر لیں اور اپنے آپ کو صرف ہندوستانی مسلمان کہیں۔ اور تیسرا یہ کہ آپ تصورِ جہاد کو چھوڑ دیں۔ کیونکہ اگر آپ بھارت کے ’’ہندوتوا دیش‘‘ کے باسی ہوں گے تو پھر آپ کو اس دھرتی کے دفاع کیلئے کسی بھی وقت مسلمانوں سے بھی لڑنا پڑ سکتا ہے اور ایسی لڑائی میں آپ کا نظریہ جہاد پر قائم رہنا آپ کی وفاداری پر شک ڈال دیگا۔ اگر آپ یہ تینوں مطالبات تسلیم کر لیں اور ان پر عمل پیرا ہوں تو پھر آپ ایمان لائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں، عید منائیں، حج کریں، زکواۃ دیں ہم آپ کی ان تمام رسومات و عبادات کا احترام کرینگے۔ لیکن اگر آپ ان تینوں تصورات پر قائم رہتے ہیں تو پھر خطرہ یہ ہے کہ ایک دن اگر بھارت کو عالمی اسلام سے خطرہ محسوس ہوا تو آپ اس دیس سے غداری کر سکتے ہو۔ غدار ’’ہندوتوا‘‘ کا شہری نہیں ہو سکتا۔ (ختم شد)