محمد اظفر نیٹ شیل کے چیف ایگزیٹو آفیسر ہیں سابقہ دور حکومت میں انوسٹمنٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے ہیں وہ پاکستان کے لئے فکر مند رہنے والوںا ور پاکستان کے لئے سوچنے سمجھنے اور بولنے والوں میں سے ہیں ان کی شخصیت حسنِ انتظام اور حسن ِکلام کا حسین امتزاج ہے اور یہی امتزاج ان کے ادارے کی منعقدہ تقریبات کو بے جھول بنادیتا ہے حال ہی میں نیٹ شیل نے اسلام آباد میں چند دنوں کے نوٹس پر پاکستان منرلزسمٹ کے نام سے جاندار قسم کی کانفرنس ترتیب دی اور خوب تحسین سمیٹی یہ وہی کانفرنس تھی جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے شرکت کی اورسپہ سالار نے ملکی صورتحال پر فی البدیہہ اور یادگار تقریر کرکے پاکستان کے اہداف واضح کر دیئے آرمی چیف نے یہ تقریر دل سے کی تھی اس لئے وہاں موجود لوگوں کے دلوں میں اتر تی چلی گئی اس بات کی گواہی وہاں دیر تک بجنے والی تالیوں نے بھی دی گویامرزاغالب نے دو سوسال پہلے آ ج ہی کے لئے کہا تھا کہ ’’دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ‘‘ اظفر صاحب اس کانفرنس سے فارغ ہوئے تو انہو ں نے اسلام آباد کے دفتر میں ہم جماعت دوستوں کی ضیافت رکھ لی یہ ہم جماعت دوبرس پہلے اک پندرہ روزہ کورس میں اکھٹے ہوئے تھے لیکن دوستی ایسے ہوئی کہ گویا پندرہ برسوں کے مراسم ہوں ،ا س محفل میں اکثرئت صحافیوں کی اور واضح اقلیت سپاہیوں کی تھی ، میجر اسد اورکرنل طلعت فوج سے ریٹائرڈ ہیں لیکن اس کے باجود ہم انہیں ’’پنڈی والا‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔ رسمی جملوں سے شروع ہونے والی گفتگو جلد ہی ملکی حالات پرآگئی۔ اس وقت عمران خان مجرم ہو کربنی گالہ سے اٹک جیل پہنچا ئے جارہے تھے۔ میں نے اس روز دفتر سے چھٹی لے رکھی تھی لیکن بدلتی صورتحال پر بار بار نظریں سیل فون پر تواتر سے آنے والے پیغامات اور فوٹیجز پرتھیں کہ خدانخواستہ پھرکہیں سانحہ نومئی جیسی صورتحال نہ ہولیکن حیرت انگیز طور پرعجیب سا سکوت تھا۔ عمران خان کو بذریعہ سڑک لاہور سے اٹک جیل لے جایا جارہا تھا کتنے ہی ضلعوں کی حدود عبور کی گئیں لیکن کہیں سے بھی ایک سامنے نہ آیا کہ’’ خبردار !خان ہماری ریڈلائن ہے ۔۔۔‘‘ اس سکوت میں عقل والوں کے لئے بڑی نصیحت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ طاقت اور اختیار کا پروٹوکول پند و نصائح کو کب قریب پھٹکنے دیتا ہے ۔ اسی محفل میں سرکاری میڈیا سے وابستہ ایک دوست کوئٹہ میں کسی سرکاری ورکشاپ میں شرکت کے بعد تازہ تازہ آئے تھے ،ہمارے دوست شاہد رندجو کوئٹہ سے نقل مکانی کرکے اسلام آباد آئے ہیں نے وہاں گزرے دنوں کا حال احوال لیا تو مسکرا کر کہنے لگے ’’یار !بڑا ہی یادگار وقت گزرا، بڑا وی آئی پی پروٹوکول ملاہمیں کہیں بھی لے جایا جاتا تھا تو ٹریفک روک دی جاتی تھی،لوگ کھڑے ہوتے تھے اور ہماری گاڑی زن کرکے گزر جاتی تھی ۔۔۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس س بھر کرقطع کلامی کی اور کہا ’’یہی پروٹوکول ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، یہ کھا گیا ہے ہمیں ‘‘۔ عمران خان صاحب کا اقتداریہی پروٹوکول اور اختیار کھا گیا،جب آپ کو اشرف المخلوقات کی اشرافیہ قراردیاجانے لگے آپ مسند سے اٹھیں تو باوردی خادم لپک کرکمرے کا دروازہ کھول دے، آپ کے قدم اٹھیں توآپ کے ملٹری سیکرٹری، پرسنل سیکرٹری، باڈی گارڈز آگے آگے راستہ صاف کرتے نظر آئیں۔ دفتر سے باہر نکلیں تو لشکارے مارتی مرسڈیز درجن بھر ڈالوں اورجیپوں کے جاگتے انجنوں کے ساتھ موجود ہو۔آپ سے پہلے اکیس گریڈ کا افسر سرد موسم میں حرارت بخش اور گر م موسم میں ٹھنڈی ٹھار کار کا دروازہ کھول کر کھڑا ہو تو آپ خود کو آسمانوں پر محسوس نہ کریں تو کیا کراچی کے علاقے گولیماریا لاہور کی شاہ عالمی میں پائیں گے ! پھرعمران خان کے مزاج میں توشروع ہی’میں ‘‘ تھی جب اسے اقتدار کی راہداریوں میں پروٹوکول کی یوریا ملی تواس نے بانس کے جنگل کی طرح اٹھان پکڑی ۔ندیم افضل چن نے پیپلز پارٹی کا تیر چھوڑ کر عمران خان کا بلا اٹھایا تھا وہ کہتے ہیں عمران خان صاحب کچھ سننے کے موڈ میں ہی نہیں ہوتے تھے۔ جب نومبر2019میں ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب میں انہوں نے بلاول بھٹو کوعامیانہ انداز میں مخاطب کیا ان کی بھونڈے انداز میں نقل اتاری تومیں نے کابینہ کی میٹنگ میں کہا جناب !آپ وزیر اعظم ہیں آپ ایسی تقاریر نہ کیا کریں۔یہ تقریر مراد سعید کرلے تو چلو وہ نوجوان ہے کوئی بات نہیں لیکن آپ کویہ زیب نہیں دیتا۔میں نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا لیکن حیران رہ گیا جب بھری کابینہ میں کسی نے میری تائید نہ کی ۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہو ،میری بات کے جواب میں وزیر اعظم نے ہنستے ہوئے کہا کہ آج بڑے دنوں کے بعد مجھے سکون سے نیند آئی ہے اور پھر کابینہ میں کون تھاجو فہمائشی ہنسی نہ ہنسا ہو ‘‘۔ عمران خان صاحب کو اٹک جیل میں اب یقینا وہ پرسکون نیند نہیں آئے گی ۔انہیں ائیر کنڈیشنر کی سہولت حاصل ہے نہ ملازمین و مصاحبین کی فوج ظفر موج ہے۔ مشکل وقت کے سائے پڑتے ہی وہ سب ایک ایک کر کے چھوڑچکے ہیں ۔کیا فواد چوہدری تو کیا پرویز خٹک، کیا شیریں مزاری اور کیا اسد قیصر۔۔۔ جنہوںنے ابھی تک بظاہر ساتھ ہی نہیں چھوڑا ان میں سے بھی بہتیرے اندرون خانہ معافیاں تلافیاں اور منت سماجت کررہے ہیں۔یہ وقت خان صاحب کے سوچنے کا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں غلطیاں کیں ؟ انہیں احساس تو ہواہوگا کہ بااثر لوگوں کا فیض ساری عمر رہتا ہے نہ کوئی تاحیات فیض یاب ہوتاہے ،بندے نے پھر زمین پر آنا ہوتا ہے ، اس پروٹوکول اور دائیں بائیں بلائیں لینے والے خوش آمدیوںنے انہیںپاؤں زمین پر نہیں رکھنے دیئے وہ غلطی پر غلطی کرتے چلے گئے دوست گنواتے مشکلات بڑھاتے گئے اورآخر کار زمان پارک سے اٹک جیل کی کال کوٹھڑی پہنچ گئے۔ اب وہ لاکھ نصیحت پکڑیں لیکن کیا فائدہ ،ٹرین تو چھوٹ گئی !