نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ منتخب حکومت کے لئے ایسا لائحہ عمل دے کر جا رہے ہیں جو قومی مفاد کے لئے سود مند ثابت ہو گا۔نگران وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں جنہیں ملک کی خدمت کا موقع ملا۔انہوں نے کہا کہ معیشت کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔جناب انوارالحق کاکڑ اور ان کی حکومت پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین نگران حکومت ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے بطور نگران وزیراعظم 14 اگست 2023 کو حلف اٹھایا ۔ وہ اب تک 190 روز پر محیط مدت مکمل کر چکے ہیں، ان سے قبل جسٹس (ر) ناصر الملک یکم جون سے 18 اگست 2018 تک 79 روز کے لیے نگران وزیر اعظم رہے۔جسٹس(ر)میرہزار خان کھوسو 25 مارچ 2013 سے 4 جون 2013 تک نگران وزیراعظم رہے، وہ 71 روز کے لیے نگران وزیراعظم رہے ۔ ان سے قبل میاں محمدسومرو 16 نومبر2007 سے 24 مارچ 2008 تک نگران وزیراعظم رہے، وہ 130 روز کے لیے نگران وزیر اعظم رہے،ملک معراج خالد 5 نومبر 1996 سے 16 فروری1997 تک نگران وزیراعظم رہے تھے۔ انہوں نے 104 روز بطور نگران وزیراعظم اپنے فرائض انجام دیے۔ ان سے پہلے معین قریشی 18 جولائی 1993 سے 18 اکتوبر 1993 تک نگران وزیراعظم تھے، وہ 92 دن اس منصب پر فائز رہے۔ بلخ شیرمزاری 18 اپریل 1993 سے 26 مئی 1993 تک نگران وزیراعظم تھے اور انہوں نے 38 روز بطور نگران وزیراعظم اپنی ذمہ داریاں انجام دیں، غلام مصطفی جتوئی 6 اگست 1990 سے 5 نومبر 1990 تک نگران وزیراعظم تھے اور وہ 91 دن اس منصب پر فائز رہے۔ جب انتخابات کا اعلان ہو جائے اور حکومت تحلیل ہو جائے تو ظاہر ہے کہ اگلے انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومت بننے کے وقفے تک ملک بغیر حکومت نہیں چل سکتا، اس دوران فیصلوں کے لیے حکومت درکار ہوتی ہے۔ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل نامی ایک ادارے کی 2014 میں شائع ہونے والی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کا معاملہ منفرد ہے۔ عام طور پر دوسرے ملکوں میں اقتدار کی منتقلی کے وقت حکومتیں کیئر ٹیکر موڈس (Caretaker Modus) میں چلی جاتی ہیں، پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں غیر منتخب افراد کی مدد سے نگران حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔اس سے قبل بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کی طرز پر نگران حکومت انتخابات کرواتی تھی مگر اسے کو ختم کر دیا گیا۔ اب دوسرے ملکوں کی طرح وہاں بھی انتخابات رخصت ہونے والی حکومت کے دور ہی میں کروائے جاتے ہیں۔ چھبیس جولائی 2023 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ڈی ایم میں شام بعض حکومتی جماعتوں کے سینیٹروں اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے مجوزہ سیکشن 230 کی مخالفت کی ۔پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمارضا ربانی نے کہا تھا کہ انہیں سیکشن 230 میں تبدیلی پر اعتراض ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ سیکشن 230 میں ترمیم اس وقت مفادات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے کئی فیصلے موجود ہیں اور کہا گیا کہ ایک منتخب حکومت کے مقابلے میں ان کا کردار بالکل مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت 60 سے 90 روز کے مختصر عرصے کے لئے روز مرہکے امور چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔مسلم لیگ نواز کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں جواز پیش کیا تھا کہ عالمی اداروں سے مالیاتی معاہدوں سمیت متعدد امور کی بابت فیصلہ سازی کی ضرورت ہو گی اس لئے نگران حکومت کو زیادہ اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔نگران حکومت نے ان اختیارات کی مدد سے ایسے ملک کی معیشت کو پٹٹری پر رکھنے کی کوشش کی جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار تھی۔نگران حکومت کی معاشی کارکردگی نے کوئی نمایاں کامیابی تو حاصل نہیں کی لیکن یہ کم نہیں کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے ادوار میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی جو بے توقیری تیزی سے ہو رہی تھی اس میں کسی حد تک کمی ہوئی۔زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے تین ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے ،آج جب نگران حکومت رخصت ہونے کو ہے تو ان ذخائر کا حجم آٹھ ارب ڈالر ہے۔نگران حکومت نے حال ہی میں امریکہ کی ایک کمپنی کے ساتھ دو سو ملیں ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے۔آرمی چیف اور نگران حکومت کی دلچسپی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں دور کرنے کے لئے سپیشل فیسلی ٹیشن کونسل تشکیل دی گئی ہے جس میں منتخب نمائندے ،آرمی چیف اور ماہرین شریک ہوتے ہیں۔یہ کونسل آئندہ حکومت کے لئے کئی طرح کی آسانیاں بہم پہنچانے کا باعث ہو گی۔ پاکستان ایک شدید سیاسی بحران کا شکار ہے ،اس بحران سے نکلنے کا ذریعہ عام انتخابات تھے۔نگران حکومت نے پر امن ماحول میں انتخابات کرا کر اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی تاہم الیکشن کمیشن کی بعض کوتاہیوں نے شکایات کی گنجائش پیدا کر دی جنہیں دور کیا جا سکتا ہے۔کچھ سیاسی جماعتیں لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ بھی کرتی رہیں۔ مجموعی اعتبار سے مشکل حالات میں نگران حکومت کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔