حصول پاسپورٹ کیلئے لگی لمبی قطاریں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہر کوئی پاکستان چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتا ہے۔پاکستان کے ابتر معاشی حالات کا رونا رو کر ہر کوئی بیرونِ ملک جانے کیلئے بے چین نظر آتا ہے۔ روشن مستقبل اور معاشی بہتری کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے بیرون ملک جانے کے خواہشمند نوجوان اکثر ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں،جو انھیں بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کراپنے جال میں پھنسالیتے ہیں۔ منظر عام اور رپورٹ ہونے والے کیسز کے مطابق اندازاً پاکستان میں ہرسال 25ہزار کے لگ بھگ افراد ان فراڈیوں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیںجبکہ یہ تعداد اصل کا بمشکل 20فیصد ہے۔’’تعلق خراب نہ ہو‘‘’’ وہ بڑے لوگ ہیں ان سے لڑ نہیں سکتے‘‘’’ان کی بہت پہنچ ہے‘‘ جیسے عوامل کی وجہ سے متاثرین کی بڑی تعداد چپ سادھ لیتی ہے اور اپنی رقوم کی واپسی کیلئے دربدر دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ فراڈیئے آج، کل، پرسوں کے بہانے بنا کر مہینوں ٹرخاتے رہتے ہیں اور پھر پول کھل جانے کے بعد پیسوں کی واپسی کیلئے یہ کہہ کر لمبا ٹائم فریم دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی فراڈ ہو گیا ہے۔ فراڈئیے جو اپنی مستقل ہڈ حرامی کی عادت کی وجہ سے محنت سے رزق ِ حلال کا ایک روپیہ کمانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔’’ہمارے جوتے ہمارے سر‘‘کے مترادف لوگوںکو کروڑوں کا چونا لگانے کے بعد اس میں سے کچھ رقم پولیس اور صاحب اقتدار لوگوں کو کھلا کر’’ بڑے تعلقات والے ‘‘بن جاتے ہیں اور یوں ان فراڈیوں پر قانون کے لمبے ہاتھ نہیں پہنچ پاتے۔خون پسینے اور محنت سے کمائے لاکھوں روپے اجاڑنے والے غریب افراد جو بیرون ملک جا کر ڈالر اور درہم کمانے کے خواب دیکھتے ہیں،بیچارے لٹنے کے بعد روپے روپے کیلئے ترستے نظر آتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد سے لاکھوں روپے بٹورنے کے بعد کچھ انسانیت دشمن عناصر دولت کی ہوس اور لالچ میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ جیسی گھٹیا اور شرمناک حرکات میں ملوث ہو کر ہزاروں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ اس ضمن میں ایران کے ساتھ بلوچستان کے پانچ اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادرکی ساڑھے نو سو کلومیٹر سے زائد کی طویل سرحد انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے ۔ بلوچستان کے راستے یورپ میں داخل ہونے کے لیے متعدد راستے اختیار کیے جاتے ہیں، ایک راستہ کراچی براستہ آر سی ڈی ہائی وے، تافتان اور پھر ایرانی شہر زاہدان سے ترکی کی سرحد پر نکلتا ہے، دوسرا راستہ کراچی سے سستان، بلوچستان سے ہوتے ہوئے لسبیلہ اور کیچ اضلاع تک نکلتا ہے۔اس کے علاوہ کوئٹہ سے مغربی بلوچستان کے سرحد علاقے تافتان اور ماسکیل یا راجے والا روٹ ہے۔دوسری جانب ایک سمندری راستہ بھی ہے جس کے لیے پہلے کراچی سے کوسٹل ہائی وے کے ذریعے ضلع گوادر اور وہاں سے مکران پہنچا جاتا ہے، مکران سے ایجنٹ چھوٹی کشیاں کرایے پر حاصل کرتے ہیں، پسنی، جیوانی، پسیہن یا سربان دن کی ساحلی پٹی سے کشتیوں پر سوار ہو کر بحیر ہ عمان عبور کرکے ایران پہنچتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے دوران بارڈر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونا عام ہے۔ ایجنٹس کے طاقتور نیٹ ورک اور ایف آئی اے کی کرم نوازیوں سے چھوٹے اور لو پروفائل ممالک کیلئے بغیر پوچھ گچھ ایسے افراد کی بھی امیگریشن کلئیر کردی جاتی ہے جن کو یہ بھی صحیح سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جا کہاں رہے ہیں۔ ایجنٹس کی’’ سیٹنگ‘‘ کے باعث ’’یہاں اور وہاں‘‘ دونوں جگہ سے کلئیرنس ہوجاتی ہے۔ بعد ازاں یورپین ممالک میں پکڑے جاتے ہیں اور ڈی پورٹ کردیے جاتے ہیں۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں بیرونی ممالک سے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ڈی پورٹ کیا گیا۔ لوگوں کو سبز باغ دکھانے والے لٹیرے یہ کہہ کر کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ’’سب سیٹ ہے ‘‘ لاکھوں روپے بٹورتے ہیں اور بعد میں کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب کے حوالے کر دیتے ہیں۔غیر قانونی داخلے کے خواہشمند افراد میں سے بمشکل ایک چوتھائی ہی کامیاب ہوپاتے ہیں ۔ اکثریت زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا پھر گرفتار ہوکر ذلت و خواری اٹھاتی ہے۔اس صورت حال پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ،انہی محرکات کی وجہ سے پاکستانیوں کیلئے ویزہ کا حصول مشکل سے مشکل ترہوتا جا رہا ہے اور سخت پابندیوں کا سامناہے۔ ایسے میں حکومتی ذمہ داران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ا نسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ ملک بھر میںسر عام دندناتے پھرتے ہیںاور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر گلی محلے میں قائم ان ناجائز مین پاورز سینٹرز کو فی الفور بند کیا جائے اور ایسے عناصر کو پابند سلاسل کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے تا کہ آئندہ کسی غریب کی زندگی بھر کی کمائی بڑے تعلقات والے فراڈئیے نہ کھا سکیں اورآنکھوں میں کامیابی کے سنہرے خواب سجانے والے نوجوان کسی انسانی سمگلر کے ہتھے چڑھ کر زندگی بھر کیلئے غلام نہ بن جائیں ۔ایسا نہ ہو کہ ایک ایک پیسہ جمع کر کے بیرون ملک بھیجنے والے والدین لاعلم ہوں اور ان کے پیارے کسی کنٹینر میں بجلی کے کرنٹ سے بھیانک موت کا شکار ہوگئے ہوں۔