یہ ایک تصویر تو تاریخ کے ویرانے میں نقش ہو گئی۔ بنجر بیابان میں ایک مفلوک الحال غریب عورت جب بے کسی کے عالم میں بیٹھی ہوئی ہے۔ دیکھنے سے صاف لگتا ہے کہ ہوش و حواس کھو چکی ہے۔ بالکل پاس ہی پائوں کے قریب ایک ننھا منا بچہ سو رہا ہے لیکن نہیں۔ یہ مر چکا ہے۔ اسے قتل کیا گیا ہے‘ چودہ مہینے کے بچے کو خنجر گھونپ کر مارا گیا ہے‘ ننھی سی جان کو زیادہ دیر تڑپنا نہیں پڑا ہوگا۔ جان جلد ہی نکل گئی ہوگی۔ مردہ بچہ لیکن اب بھی لگتا ہے کہ سو گیا ہے۔ ماں کی آبرو لوٹی گئی ہے۔ پھر بچے کو مارا ہے اس کے بعد ماہ کی گردن پر بھی خنجر گھونپا گیا ہے۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا‘ وہاں جا کر وہ مر گئی۔ ماں کا نام نسیم بی بی ہے۔ نسیم یعنی صبح کی ٹھنڈی ہوا لیکن اس مفلوک الحال عورت کے قریب سے نسیم کبھی گزری بھی نہ ہوگی۔ عمر بھر بھیک مانگی‘ آخری بھیک اپنی اور بچے کی زندگی کی مانگی جو نہیں ملی۔ بچے کا نام یوسف ہے اور مرنے والی اس مرنے والے کو پیار سے چندا کہتی تھی۔ کیوں؟ آپ چونک گئے ناں۔ آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ غریبوں‘ بھکاریوں کے ہاں چندا کہاں سے آ سکتا ہے‘ انہیں اپنے بچوں کو چندا کہنے کا حق کس نے دیا؟ ہاں ایسا کوئی حق اسے حاصل نہیں تھا لیکن وہ استحقاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بچے کو چندا کہتی رہی۔ چندا جو طلوع بھی نہ ہو سکا تھا کہ غروب کر دیا گیا۔ یہ واقعہ راولپنڈی کا ہے۔ سفاک ملزم واجد نام کا شیطان گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جلد چھوٹ جائے گا۔ آخر اس نے کون سا اتنا بڑا جرم کیا ہے۔ ایک عورت ہی کو تو مارا ہے۔ ہماری پاک نہاد سوسائٹی میں عورت کا مارنا کبھی جرم گردانا ہی نہیں گیا۔ عورت اور پھر غریب عورت‘ اور اس کا وہ بیمار سا بچہ بڑے ہو کر اس نے بھی بھکاری ہی بننا تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد خاص طور سے عورتوں کے قتل کے واقعات کی زد میں ہیں۔ ایک ریٹائرڈ سفارت کار کی بیٹی کو ایک ارب کھرب پتی بگڑے ہوئے ۔ فارن زادے نے قتل کردیا۔ مقتولہ کا باپ قدریبا حیثیتہے اور متعلقہ ڈی آئی جی جن کا نام افضال احمد بتایا گیا ہے قدرے ایماندار اور نڈر۔ اس نے قاتل پکڑ لیا ہے اور فی الحال اس کی رہائی کے امکانات کم ہیں لیکن باحیثیت باپ بہرحال ارب پتی نہیں ہے اور ڈی آئی جی بھی بہرحال ملازم ہے۔ یقین کیجئے‘ یہ قاتل چھوٹ جائے گا‘ اسے بری قرار دلوا دیا جائے گا۔ پچھلے دو تین برسوں سے عورتوں اور بچوں کے قتل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اضافے کی شرح حیران کن ہے۔ قاتل بے دھڑک اور بے خوف ہیں۔ قصور کی زینب قتل ہوئی‘پورا ملک چیخ اٹھا۔پورے ملک سے مراد سارے ادارے ہیں۔ اب چیخ تو کہاں‘ کوئی سسکی‘ کوئی ہچکی بھی سنائی نہیں دیتی‘ شہر خموشاں ہے‘ شام غریباں ہے۔ حکمرانوں کے خیالات عورتوں کے بارے میں منفرد ہیں۔ پرویز مشرف کے خیالات سے بھی آگے۔ مشرف نے کہا تھا‘ عورتیں خود ریپ کراتی ہیں۔ اب یہ فرمان آیا کہ ریپ اور قتل میں ہوش و حواس کھو دینے والی عورت کی تصویر کو بار بار دیکھا۔ اس کا لباس میلا کچیلا تھا‘ غریبانہ تھا لیکن پورا تھا‘ ساتر تھا۔ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ مناسب تھا یا نا مناسب۔ نیوکار‘ دیندار حلقوں میں سے ایک حصے نے نئے ریاستی بیانیے کی پرجوش تائید کی کہ ریپ اور قتل کا ذمہ دار نامناسب لباس ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں سینکڑوں عورتیں گھروں میں گھس کر یا گھروں سے نکال کر کاروکاری کے نام پر مار دی جاتی ہیں۔ قتل کی اس طرح کی وارداتوں کی شرح پاکستان کی پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ معلوم ہوا کہ نامناسب لباس پہننے والوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ سال بھر میں سینکڑوں بچے اور بچیاں ہوس کا شکار بنا کر قتل کردی جاتی ہیں۔ ان بعض اہل منبر حضرات کی بات مان لی جائے تو دنیا بھر میں سب سے زیادہ نامناسب لباس ہمارے ہاں کے بچے اور بچیاں پہنتی ہیں۔ بچے جو سکول جاتے ہیں اور بچے جو ابھی سکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچ۔ کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ نظام کی نیک خواہشات قاتلوں کے ساتھ ہیں۔ نیکوکار زاہدوں کے غیض و غضب کا نشانہ نامناسب لباس والے ہیں کسی کو سزا ہوئی نہ ہوئی۔ سانحہ ساہیوال سے لے کر بنجر ویرانے کی نسیم بی بی اور اس کے چودہ مہینے کے چندا تک۔ یقین نہیں آتا تو وفاقی وزیر اطلاعات کا وہ بیان یاد کرلیجئے جو چند ماہ پہلے انہوں نے سانحہ ساہیوال کے ملزموں کے بارے میں ایک ٹی وی پروگرام میں ڈنکے کی بنیاد پر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ قاتل دراصل بے گنا ہیں۔ تبدیلی آ گئی ہے۔ اب جو بھی مرتا ہے مارا جاتا ہے‘ گناہ گار ہوتا ہے۔ اپنے گناہوں کی مکافات بھگتتا ہے۔ قاتل تو بے قصور‘ بے گناہ ہیں۔ ریپ ہو کر قتل ہونے والی اپنی بے راہ روی اور نامناسب لباس کی بنا پر ماری گئی۔ قاتل اور ریپسٹ کوئی روبوٹ تو نہیں ہوتے‘ انہیں تو ریپ اور قتل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بے چارے قاتل۔ ٭٭٭٭ ریاستی بیانیے کی اب وضاحت آ گئی ہے کہ یوں نہیں‘ ووں کہا تھا۔ ڈیجیٹل دور ہے‘ جو بھی کہا تھا‘ جوں کا توں محفوظ اور موجود ہے۔ جو چاہے ملاحظہ کرلے۔ بہرحال‘ اب یوٹرن لے لیا گیا ہے تو دیکھئے‘ وہ بعض دینی حلقے اور نیکوکار اب کیا فرماتے ہیں جنہوں نے واپس لئے گئے بیانئے پر قصیدہ نگاری کے شاہکار رقم اور نشر کئے تھے۔