مجھے یاد ہیں وہ دن جب حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو نیب عدالت لایا جاتا ۔ دونو ں الگ الگ گاڑیوں میں پروٹوکول کے ساتھ احاطہ عدالت میں داخل ہوتے۔ دونوں کی آمد میں دس منٹ کا وقفہ ہوتا۔استقبال کرنے اور پھول نچھاور کرنے والے درجن بھر کارکنوں کو بھی روکا نہ جاتا۔ وہ گاڑیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے۔برآمدوں اور راہداریوں میں قطار بنا کر پھول پھینکتے اور نعرے لگاتے رہتے۔ پولیس اہلکار شہباز شریف اور حمزہ کے گرد حفاظتی حصار بنا لیتے اور نہایت احترام کے ساتھ انہیں کمرہ عدالت میں پہنچاتے۔ کمرہ عدالت میں شہباز شریف کا پرسنل سٹاف پہلے سے موجود ہوتا۔ ایک ملازم ان کی کمر کے پیچھے رکھنے والا کشن تھامے ہوئے ہوتا جو شہباز شریف کی اس کرسی پہ رکھ دیا جاتا جہاں انہوں نے بیٹھنا ہوتا۔ ایک ملازم ہر وقت ٹشو باکس ہاتھ میں لیے کھڑا رہتاکہ کب میاں صاحب کو ضرورت پڑ جائے۔ ایک آدمی ان کے پیچھے فون لیے کھڑا رہتا تا کہ ملزم شہباز شریف کی لندن میں نواز شریف سے بات کرا سکے۔ ایسا پروٹوکول شاید ہی کبھی کسی ملزم کو نصیب ہوا ہو۔ اور مریم فرماتی ہیں کہ ہم نے جیلیں کاٹیں اور نہیں روئے ،یہ کیوں رو رہے ہیں ۔ روز جلسوں میںمریم نواز یہ بات دوہرا رہی ہیں کہ جب ہماری گرفتاریاں ہوئی تھیں ہم تو نہیں روئے تھے، یہ پی ٹی آئی والے چار چار دن کی گرفتاریوں سے رونے کیوں لگ گئے ہیں۔ تضحیک کا مزید نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چندہ جمع کر کے ا ن کے لیے ٹشو پیپر کا ایک ٹرک بھجوانا چاہیے۔شیخ رشید کا مذاق اڑاتے ہوئے مزید فرمایا مجھے ان کی شکلیں دیکھ کے ترس آتا ہے کہ کیسے یہ پولیس والوں کے گلے لگ لگ کے رو رہے ہیں۔ مریم نواز کو تحریک انصاف اور لیگی رہنمائوں کی گرفتاریوں کے دوران روا رکھے جانے والے سلوک میں فرق جان لینا چاہیے۔ سعد رفیق، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ،حمزہ شہباز، شہباز شریف،نواز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان ،کسی ایک کے ساتھ بھی ویسا سلوک روا نہیں رکھا گیا جیسا شہباز گل کے ساتھ رکھا گیا۔ کیا ان میں سے کسی کو بھی ویسے برہنہ کر کے تذلیل کی گئی جیسے شہباز گل کی کی گئی۔کیا سعد رفیق ، خواجہ آصف اور رانا ثنا میں سے کسی کی اس طرح کی ویڈیو منظر عام پہ لائی گئی جیسی اعظم سواتی کی ویڈیو ریکارڈ کر کے لائی گئی اور پھر پچھہتر سال کے بوڑھے شخص کو برہنہ کر کے اس کی عزت کو تار تار کیا گیا۔یعنی مریم نواز یہ توقع کرتی ہیں کہ پچھہتر سالہ پوتے پوتیوں والے ایک شخص کو ننگا کر کے رکھ دیا جائے اور اس کی آنکھ سے آنسو نہ نکلیں۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ لیگی رہنمائوں سے جب اعظم سواتی کی بابت سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ میڈیکل رپورٹ میں تشدد ثابت نہیں ہوا۔ بھلا کپڑے اتار کے برہنہ کر دینا میڈیکل رپورٹ سے کب ثابت ہو سکتا ہے۔ فواد چودھری کے منہ پر کپڑا ڈالنے کاجواز تو خود ن لیگ بھی پیش نہیں کر سکی۔ رانا ثنا بھی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ دہشت گردوں کی طرح کپڑا ڈالنے سے کیا حاصل کرنا مقصود تھا۔یہ سلوک گرفتاری کے دوران خواجہ آصف یا رانا ثنا سے روا رکھا جاتا تو آنکھ بھر نہ آتی؟کس بے رحمی کے ساتھ مریم ان آنسووں کا مذاق اڑا رہی ہیں جو کسی کی تذلیل ہو جانے پر نمودار ہوئے۔میں نے نیب کے وہ شاندار اور آرام دہ کمرے دیکھے ہیں جہاںنواز شریف ، مریم نواز ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور سعد رفیق کو رکھا گیا تھا۔ ہر کمرے میں ائیر کنڈیشنر لگا تھا۔ آرام دہ بیڈز پہ صاف ستھری سفید چادریں بچھی ہوتی تھیں۔ صاف ستھرے واش روم، گھر کا کھانا ، خاندان سے ملنے کی اجازت۔ مریم نواز کا کمرہ دیکھ کر تو کسی اچھے ہوٹل کے کشادہ کمرے کا گماں ہوتا تھا۔ اور یہاں شیخ رشید کے گھرسے آنے والا کھانا بھی واپس بھیج دیا گیا کہ اجازت نہیں ہے۔ مریم نواز کو تو نیب کی حراست کے دوران موبائل فون استعمال کرنے کی سہولت بھی حاصل رہی۔ ایک ملازمہ کے ذریعے موبائل فون ان تک پہنچا اور وہ چپکے چپکے اسے استعمال کرتی رہیں۔ پھر نیب حکام کو بھنک پڑی تو انہوںنے کمرے کی تلاشی کے لیے ٹیم اندر بھیجی۔ وہ ویڈیو نیب حکام کے پاس موجود ہے کہ جب تفصیل سے تلاشی لی گئی تو پتہ چلا کہ مریم نواز موبائل تکیے کے نیچے رکھ کے اس پہ خود بیٹھی ہوئی تھیں۔ موبائل برآمد ہونے پر وہ حکام کو سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دیتی رہیں۔اس سارے عمل کی ویڈیو بھی بنائی گئی تاکہ نیب حکام کی طرف سے شائستہ برتائو کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکے۔ لیگی رہنمائوں کی گرفتاریوں کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نے تو گرفتاری کے دوران جیل کاٹی ہی نہیں۔ زیادہ تر وقت کسی نہ کسی بہانے اسپتال میں گزارا۔ خواجہ آصف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کیا گیا تو چند ہی دن میں وہ آنکھ کے آپریشن کے لیے اسپتال میں داخل ہو گئے اور تین مہینے تک وہاں داخل رہے جب تک کہ ان کی ضمانت نہ ہو گئی۔ نواز شریف، سعد رفیق اور احد چیمہ سمیت زیادہ تر لوگ اسپتالوں میں داخل رہے ۔ احد چیمہ نے تو باقاعدہ اسپتال میں چیک اِن کر رکھا تھا، دو ڈھائی سال کسی نا دیدہ بیماری کے باعث اسپتال میںداخل رہے۔شرجیل میمن، خورشید شاہ اور ڈاکٹر عاصم کی طرح۔ نہ جانے تحریک انصاف کے دور میں یہ سب سہولتیں انہیں کیوں حاصل رہیں ۔ ایک اور فرق بھی ہے ۔جتنے بھی لیگی رہنمائوں کی گرفتاریاںہوئیں ان سب پر کرپشن کے مقدمات تھے، کسی پہ کمزور،کسی پہ مضبوط اور کسی پہ بہت مضبوط۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر بننے والے منی لانڈرنگ کے کیس میں تو اتنے شواہد موجودتھے کہ شاید ہی کبھی کسی کیس میں اتنا تفصیلی ریکارڈ چالان کا حصہ بنایا گیا ہو۔دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنمائوں پر بننے والے کیس محض ان کے جملوں اور بیانات کی بنیاد پر بنائے گئے جن سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر انہیں تشدد کا جواز ہرگز نہیں بنایا جا سکتا۔ امید کی جا سکتی ہے لیگی رہنمائوں کے دل سے نکلنے والی آہوں اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کی آنکھ سے نکلنے والے آنسوئوں کا فرق سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔