جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت سوانح حیات’’ شہاب نامہ‘‘ کے مطالعہ سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانو ں کو جاننے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب ’’رائے عامہ‘‘ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب پاکستان کے تین سربراہان مملکت گورنر جنرل چودھری غلام محمد ، صدر اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کے پرسنل سیکرٹری رہے۔ اس طرح رائے ریاض حسین کو پاکستان کے چار وزراء اعظم جن میں میاں نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی شامل ہیں، کے پریس سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہواہے۔ نواز شریف کو اس قدر ان کی رائے عامہ کو اثر انداز کرنے کی طاقت کا ادراک ہوگیا تھا، کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دو ادوار میں رائے ریاض کو ہی پریس سیکرٹڑی کیلئے منتخب کیا۔ڈوگروں کے شہر جموں میں پیدا ہوئے قدرت اللہ شہاب اور رائے ریاض میں ایک اور مشترکہ وصف یہ بھی ہے کہ شہاب نے جھنگ ضلع کو بطور ڈپٹی کمشنر پذیرائی بخشی اور ریاض صاحب نے یہاں پیدا ہوکر اس علاقہ کی شان بڑھائی۔ یعنی جھنگ کی آب و ہوا کا اثر دونوں پر ہے۔ خبروں کے مرکزبھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین دہائیوں تک میرے جیسے رپورٹنگ کرنے والے صحافی کیلئے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ 2004سے 2007تک وہ پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس منسٹر رہے۔ چونکہ بھارتی میڈیا کیلئے پاکستان کو کور کرنا فرض اولین ہے، چاہے کہیں تشددکا واقعہ ، بم دھماکہ یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہے اور ایسی صورت میں پاکستانی مشن میں پریس منسٹر تو انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ اس کو فون تو کرنا پڑتا ہے اور پھر نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے کہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی مانگ ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔اس لئے اسکا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری ہوتا تھا۔ مئی 1995کویک جونیئررپورٹر کے طور پر مجھے دہلی میں منعقد سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئرآدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کیلئے کہا گیا۔ انہوں نے مجھے ہدایت دی کہ میں پاکستانی میڈیا کے وفد، جوصدر فاروق لغاری کے ہمراہ آیا ہوا تھا، پر نظر رکھوں اور اگر پاکستانی وفد انکو کوئی بریفنگ دیتاہے، تو ان کے مندرجات سے ان کو مطلع کروں۔ویسے تو دہلی میں ان دنوں جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو ہوتا تھا ، جس کے سربراہ عبدالوحید حسینی تھے ۔ ان کے علاوہ کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔ مگر پاکستانی میڈیا کے جید صحافیوں سے ملنے کا پہلی بار موقع مل رہا تھا۔ خاص طور پر مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر دی نیشن کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی خاصی شفقت سے پیش آئے۔ وہیں انہوںنے مجھے بھارت سے دی نیشن اور نوائے وقت کیلئے رپورٹنگ کرنے کی آفر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرری کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔ اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار حریت کانفرنس کے لیڈروں سے پاکستانی ہائی کمیشن میں اس وقت سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ خیر 2002تک دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر میں ڈیلی ٹائمز اور فرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔پھر کئی برس بعد پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق چھوٹ گیا تھا۔ مگر 2011میں ہارون رشید صاحب نے روزنامہ دنیا میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کر پھر استوار کروایا۔ اب یہ کالم روزنامہ 92نیوز میں مسلسل شائع ہورہا ہے اور اس تعلق کی یاد دہائی بھی کرواتا رہتا ہے۔ جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا، تو میں ڈیلی ٹائمز کیلئے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کیلئے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگر بھارتی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کیلئے، پرویز احمد اے آر وا ئی ٹی وی کیلئے اور پشپندر کلوستے آج ٹی وی کیلئے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے جو پاکستان سے تین سال کی مدت کیلئے آتے تھے۔ گو کہ 1995سے ہی مجھے پاکستانی ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسط پڑنا شروع ہوگیا تھا۔چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لئے پاکستان سے آنے والے اخبار لینے کیلئے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطور سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر جوچھاپ چھوڑی ، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ رائے ریاض کے بعد اس کو کسی حد تک منظور میمن نے نبھایا۔ بزرگ صحافی مبارک شاہ اور اشفاق گوندل کا اکثر حوالہ دیتے تھے۔ مگر ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا تھا کہ وہ شامیں پریس کلب آف انڈیا میں بتاتے تھے اور ان کے اکاونٹ سے بھارتی صحافیوں کی شامیں رنگین ہو جاتی تھیں۔ میرا پہلا واسط صوفی منش مفتی جمیل الدین سے ہوا تھا۔ ان سے بادہ خوری یا صحافیوں کیلئے جیب خالی کرنے کی توقع کرنا فضول تھی۔ شاعر ہونے کی وجہ سے کچھ غائب دماغ بھی تھے۔ ان کے دور میں پریس آفس ایک ہنگامہ خیز بستی کا منظر پیش کرتا تھا۔ ان کو بشارت کی صورت میں اپنا جیسا غائب دماغ پی اے ملا تھا۔ ایسی جوڑی کہ جس سے پناہ ہی مانگی جاسکتی تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے ہے کہ ان کے آفس میں کمپوٹر اور پرنٹر نئے نئے ہی آئے تھے۔ میں نے ایک دن فون پر مفتی صاحب سے رابطہ کیا، تو وہ دفتر میں موجود نہیں تھے۔ بشارت نے میرا نام وغیرہ لکھ کر یقین دلایا کہ جونہی صاحب آجائیں گے، وہ ان کو اطلاع دیکر واپس کال کروائیں گے۔ خیر اس کے چار روز بعد میں ایک دن مفتی صاحب سے ملنے چلا گیا، تو میری موجودگی میںہی کمپوٹر سے پرنٹ کیا ہوا کاغذ نفیس بارڈر لائن وغیرہ کے ساتھ بشارت نے مفتی صاحب کے سامنے رکھا۔ یہ ان افراد کی لسٹ تھی، جنہوںنے انکی غیر موجودگی میں فون کئے تھے۔ اس میں سرفہرست میرا نام تھا۔ مجھے اب یاد بھی نہیں تھا کہ میں نے کبھی فون کیا تھا۔ بشارت صاحب نے کہا کہ چونکہ پرنٹر خراب تھا، اس لئے وہ مفتی صاحب کو میرے فون کے بارے میں مطلع نہیں کرسکے۔ جو بھی بھارتی صحافی ویزا لینے کیلئے آجاتا،تو بشارت انکو اپنی صحافت کی تاریخ بتاکر متاثر کرنے کی کوشش کرکے مدعا زبان پر لاتے تھے کہ وہ پاکستان میں کسی بھارتی چینل کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہر کسی سے وہ چینل میں رپورٹر کی تنخواہ کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ (جاری ہے)