قرآن کریم سورہ سبا میں اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ جس وقت حضرت سلیمانؑ کی وفات ہوئی وہ اپنے مسخر جنوں کے کام کی نگرانی کر رہے تھے لیکن جنات کو ان کی موت کی خبر نہیں ہوئی‘ وہ بدستور حضرت کو نگران دیکھ کر اپنی بیگار میں جتے رہے۔ حضرت سلیمانؑ اپنے اہم کاموں کی نگرانی‘ خصوصاً جو جنات کے ہاتھوں انجام پاتے‘ بنفسِ نفیس کیا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے عصا کی ٹیک لگائے ہوئے کسی تعمیری کام کی نگرانی کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں ان کی موت کا وقت آ گیا اور فرشتہ اجل نے ان کی روح قبض کر لی لیکن وہ جس عصا کے سہارے کھڑے تھے بدستور کھڑے رہے‘ جنات اس ڈر سے اپنے کام میں لگے رہے کہ حضرت سلیمانؑ سامنے موجود ہیں‘ اسی حالت میں ایک عرصہ گزر گیا‘ اسی دوران دیمک نے نیچے سے عصا کو کھا لیا‘ جس کے بعد ان کا جسدِ مبارک زمین پر گر گیا۔ تب جنات کو معلوم ہوا اور وہ اپنی بیگار چھوڑ کر بھاگ لئے! یہ تو اللہ کی مشیت تھی کہ پیامبرؑ ایک عصا کے سہارے کھڑے رہے ان کا توازن برقرار رہا‘ دراصل یہ ایک معجزہ ہی تھا اُمت کو دکھانے کے لئے کہ جنات کے پاس کوئی غیر معمولی صلاحیت اور غائب کا علم نہیں جو لوگوں میں راہ پا گیا تھا‘ ان گمراہ لوگوں کو دکھانا مقصود تھا کہ غائب تو انہیں کیا معلوم ہوا وہ بیچارے سامنے کھڑے شخص کو نہیں پہچان سکے اور اسے زندہ سمجھ کر حکم بجا لاتے رہے۔‘‘ حضرتِ اقبال نے پیام مشرق میں خدا اور انسان کا مکالمہ لکھا ہے۔ جہاں رازیک آب وگِل آفریدم‘ تو ایران و تاتاروزنگ آفریدی ‘من ازخاک پولا دوناب آفریدم‘تو شمشیرو تیرو تفننگ آفریدی‘تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘ سفال آفریدی‘ ایاغ آفریدم‘بیابان و کوہستارو راغ آفریدی‘خیابان و گلزار و باغ آفریدم‘من آنم کہ ازسنگ آئینہ سازم‘من آنم کہ از زہرِ نوشینہ سازم ترجمہ: میں نے (خدا) دنیا کو ایک ہی خمیر سے پیدا کیا تو (انسان) نے اس میں ایران‘ تاتار اور حبثہ بنا لئے۔ میں نے (خدا) مٹی سے خالص لوہا پیدا کیا تونے(انسان ) اس تلوار‘تیر ‘ بندوق بنا لئے۔ پھر تونے اس لوہے سے چمن کے درختوں‘ پودوں کے لئے کلہاڑے اور خوشنما پرندوں کے لئے پنجرے بنا لئے ،اے خدا تونے رات بنائی تو میں نے (انسان) اسے روشن کرنے کے لئے چراغ بنا لیا تونے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ تخلیق کر لیا۔ تونے(خدا) جنگل‘ بیابان‘ پہاڑ‘ سبزہ زار پیدا کئے‘ میں نے (انسان) ترتیب و دلکشی کے لئے کیاری گلزار اور باغ بنا لئے میں وہ انسان ہوں جو پتھر سے شیشہ بنا لیتا ہوں میں وہ ہوں جو زہر سے ’’نوشینہ‘‘ بنا لیتا ہے(تریاق)۔۔۔!! مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا نقش ہوں اپنے مصور سے گلہ رکھتا ہوں میں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ سے عرض گزاری‘ اے خدا مجھے دکھا دے کہ تو زندہ کو مر کے مٹی ہو جانے والوں کو کس طرح پھر سے زندہ کرے گا فرمایا اے ابراہیمؑ کیا تو اس پر ایمان نہیں رکھتا۔ عرض کیا یقینا میں ایمان رکھتا ہوں بس آنکھوں دیکھی بصیرت کے لئے عرض گزاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا چار پرندے(پالتو) لے کر انہیں اپنے سدھالو‘ پھر انہیں ذبح کر کے ٹکڑے کرو ،ہر ٹکڑے کو ایک دوسرے سے دور فاصلے پر رکھو، پھر انہیں آواز دے کر اپنے پاس بلائو ۔حضرت ابراہیمؑ نے ایسا ہی کیا، ذبح کئے ہوئے پرندوں کے ٹکڑے پھر سے زندہ پرندے بن کر اپنے مالک کے پاس اڑتے اور دوڑتے ہوئے پہنچ گئے۔ یہ اللہ کی طرف سے ابراہیمؑ کے لئے معجزہ رونما ہوا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برص کے مریض شفایاب کرنے اور مردہ کو زندہ کر دینے کے معجزے عطا کئے‘ اکثر پیغمبروں کو اللہ نے ان کی قوموں کے مطالبے یا انہیں قائل کرنے کی غرض سے معجزوں سے نوازا جب قوموں نے اس کے باوجود نافرمانی کی تو نہیں نابود کر دیا گیا‘ آخری پیغامبر کا ظہور چودہ سو برس پہلے ہو چکا‘ اب قیامت تک کے لئے نہ کوئی نبوت ہے نہ پیغمبر ‘ قرآن کی صورت میں ایک رہنما مکمل اور مفصل رہنما کتاب اور حضرت محمدؐ کی سیرت اور احادیث قیامت تک کے لئے کفالت کرے گی۔نبوت ختم ہوئی اور معجزوں کا ظہور بھی باقی نہ رہا مگر بعض برگزیدہ بندوں اور ’’پہنچے ہوئے‘‘ بزرگوں کی کرامات کا ذکر کثرت سے سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے‘ پاکستان میں بھی برگزیدہ انسانوں سے براہ راست ملنے یا دیکھنے کا موقع تو نہیں مل پایا لیکن پہنچے ہوئے بزرگوں سے ہماری قوم کو بکثرت واسطہ رہا ہے ۔ خداسے انسان کا مکالمہ اور نبیوں کو عطا معجزوں کا ذکر آسمانی کتابوں سے ہم تک پہنچا کچھ پرانے زمانے کے انسانوں کی زبانی سنا لیکن آج پہنچے ہوئے بزرگوں کی کرامات بھی کچھ کم نہیں ۔سیاست کے مردے جو برسوں سے دفنائے جا چکے وہ ان پہنچے ہوئے مسیحائے زمان کے اثر آفرین اشلوک سے زندہ ہو کر بادشاہی کے تخت کے لئے تیاری کریں‘ ماہر ترین شعبدہ بازوں سے کہیں طاق اور ماہر ہمارے ہیں جو پل میں تولہ کریں دوسرے پل ماشہ بنا دیں‘ جن سیاسی پرندوں کے پَر نوچ گردن کاٹ کر ان کے ٹکڑے لندن‘ دوبئی اور نیو یارک میں بکھیرے وہ ہمارے شعبدہ بازوں کی بے آواز کے حکم پر اچھے بھلے ہو کر پل دو پل میں ہزار میل کی مسافت سے اڑتے ہوئے آئیں ۔شعبدہ باز کوئی انگوٹھی یا سکہ زید کی جیب میں ڈال کر سینکڑوں تماش بینوں کی نگرانی نظروں کے سامنے بکر کے کان سے نکال دکھاتے ہیں۔ ان کا کمال تو ایک سکہ یا چھوٹی سے انگوٹھی پر نظر کو دھوکہ دینا ہے ہمارے پہنچے ہوئے خود نظر آئے بنا اپنی کرامت کا ظہور اور شعبدے کا اثر راجہ سلمان کے بکس میں رکھی آپ کی امانت کسی عون چوہدری کی صندوقچی سے نکلتا دکھائیں ۔آپ ان کی کرامات کوئی شمار نہیں کر سکتے، ایسی مافوق الفطرت کہ لاموجود کو وجود بخشیں اور لاموجود کریں کوئی ایک دھاگہ ‘ کاغذ ‘ سکہ‘ انگوٹھی نہیں‘ ووٹ کی لاکھوں پرچیاں جو ہے ہی نہیںوہ بھی نشان زد اور ٹھپہ شدہ ووٹ بن کر نکلے یہ تو کاغذ‘ ٹھپہ اور صندوقچی کی بات ہے ان کی کرامات ایسی کہ معجزات کو شرمائیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے پرندے سدھائے پھر ان کو ذبح کیا وہ اللہ کے حکم سے ابراہیمؑ کے بلانے پر زندہ ہو کر دوڑے آئے‘ پرندے چھوٹے چھوٹے بے جان پرندے اقبال ہوتے تو مکالمے میں اضافہ کرتے کچھ شکوے کی شان بڑھاتے‘ انسانی کوششوں کا خدائی تخلیق سے موازنہ کرتے یہاں ذکر پرندوں اور بے جان کاغذ‘ سکے اور انگوٹھی کا نہیں عاقل‘ بالغ ‘ انسانوں کا ہے جو عوام نے اپنے ہوش و حواس سے سیانے اور پاک باز جان کر چنے تھے۔ ایک دو نہیں پورے بیس کے بیس ایک سیاسی جماعت کی نشستوں پر بیٹھے بٹھائے‘ شمار کے وقت جب بھی گنتی ہوئی وہ حریف کی صفوں میں نظر آئیں۔ یہ نظر کا دھوکہ نہیں ’’پیران غائب‘ کی زندہ کرامت تھی، حریف ان پر فریفتہ ہے اسے اپنی صف میں شامل دیکھ کر شاداں و فرحاں لیکن اس حقیقت سے بے خبر کہ یہ سدھائے انسانی جانور جب ان کو بلایا جائے گا یہ اڑتے ہوئے ‘دوڑتے بھاگتے اسی استھان پر پہنچیں گے جہاں پر ان کی ڈور بندھی ہے۔