تناؤ بڑھ رہا تھا ایسے میں آنے والا مہمان بہت اہم تھا ،اُس 75 برس کی بوڑھی عورت نے مہمان کے لئے خود ہی چولہا جلایا پانی گرم کرکے چائے بنائی اور ایک کپ مہمان کے سامنے رکھا اور دوسرا دروازے پر موجود مہمان کے سیکیورٹی گارڈ کوتھماکر مہمان کے سامنے بیٹھ گئی ،دونوں میں بات چیت ہوئی بوڑھی عورت کے گھنے بھنوؤں تلے پرسوچ آنکھیں مہمان کے چہرے پر جمی رہیں اور پھر اس نے پرسوچ انداز میں ہنکارہ بھر کرکہا’’مجھے یہ معاہدہ قبول ہے آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنے سیکرٹری کو میرے سیکرٹری کے پاس بھیج دیجئے گا‘‘۔یہ بوڑھی عورت اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر تھی ۔ دوسر ے روزگولڈا میئر کواس کے کابینہ کے ساتھیوں نے گھیر لیا وہ جس معاہدے کی حامی بھر چکی تھی اس پر اعتراض ہونے لگے اک یہاں سے سوال کرتا وہ چپ ہوتا تو دوسرا بول پڑتا ان کے خدشات غلط نہ تھے اسرائیل کی مالی حالت پتلی تھی وہ 67ء کی جنگ جیت تو چکے تھے لیکن اس کی بھاری قیمت نے ملک کا خزانہ خالی کردیا تھا ایسے میں ان کی وزیر اعظم امریکہ سے مہنگا ترین دفاعی معاہدہ کرنے چلی تھیںجس نے اسرائیلیوں کے چولہے بجھا دینے تھے، یقینی طور پر اس وقت چین اسموکر گولڈا میئرکو سگریٹ کی شدید طلب ہورہی ہوگی لیکن وہ اس کا ریڈنگ روم یا بیڈروم نہیں تھا کہ سگریٹ سلگا کر لبوں میں داب لیتی اس کے سامنے بیٹھے کابینہ کے وزیر کہہ رہے تھے کہ آپ کے معاہدے سے اسرائیل میں فاقے پڑجائیں گے ،ہم اتنا مہنگاسودا نہیںکرسکتے پوری کابینہ نے متفقہ طور معاہدہ مسترد کردیا،گولڈا میئر سب کی سننے کے بعد کہنے لگی ’’ اگرہم جنگ جیت گئے تو تاریخ ہمیں فاتح کا تاج پہنائے گی جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دے تو یہ بھول جاتی ہے کہ وہ جنگ میں کتنے دن کے فاقے سے تھی جوتوں میں کتنے سوراخ تھے اور تلواروں کے نیام پھٹے ہوئے تھے، ہم نے فنا نہیں ہونا یہ ہماری بقاء کا معاملہ ہے ‘‘اور بات ختم ہوگئی معاہدہ کرلیا گیا اسی مہنگے معاہدے کی بدولت اسرائیل نے 1973کی جنگ بھی جیت لی اور اپنے طاقتور عرب پڑوسیوں پر اپنی دھاک بٹھا دی۔گولڈا میئر نے جس آسانی سے چائے کے دو کپ پر اس وقت تک کی اسرائیل کی تاریخ کا مہنگا ترین دفاعی معاہدہ کیا تھا اس سادگی اور آسانی سے تو ہمارے یہاں بھل صفائی کی مہم کا آغاز بھی نہیں ہوتا۔ جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے جس کی صرف ایک کمپنی مرسڈیز بینز نے 2022 میں 21.8 بلین ڈالر کا منافع کمایا تھا اسی ملک میں انجیلا مرکل نامی کی ایک کیمسٹ خاتون 2005ء سے 2021ء تک سربراہ رہی ہیں ایک بڑے ملک کی سربراہ ہونے کے باوجود ان کارہن سہن نہائت سادہ تھا وہ لباس کے معاملے میں بھی زیادہ حساس نہیں تھیں ،ان کے ہاتھ میں کبھی مہنگا پرس دیکھا گیا نہ پاؤں میں بیش قیمت جوتے ، انجیلا واشنگ مشین میں اپنے اور اپنے شوہر کے کپڑ ے بھی خود ڈال لیا کرتی تھیں ا ور موقع ملنے پراپنے اور شوہر کے لئے کافی بھی بنالیتیں ایک بار ایک نیوز کانفرنس میں ایک صحافی نے ان کے لباس پر جملہ اچھال دیا کہ آپ نے تو آج بھی وہی لباس پہنا ہوا ہے جو اس دن بھی پہن رکھا تھا ، جرمن چانسلر نے اس منہ پھٹ صحافی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور جواب دیا ’’میں سرکاری ملازم ہوں ماڈل نہیں ‘‘۔ یہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ارویند کجروال ہیں ،پاؤں میں دو پٹی کی قینچی چپل پہنے بھی مل جاتے ہیں ،وہ کبھی بیوروکریٹ کی حیثیت سے اس سسٹم کا حصہ تھے لیکن اب اسی سسٹم کودہلی والوں کے لئے سیدھا کر رہے ہیں انہوں نے ملازمت چھوڑی جھاڑو اٹھایا اور سیاست میںآگئے کہ ’’گند‘ ‘ صاف کرنا ہے کجروال نے جھاڑو کے نشان سے انتخابی سیاست میں حصہ لیا اور2015ء سے دہلی کی قسمت بدلنے میں لگے ہوئے ہیںان کی سادگی اور کارکردگی نے دہلی والوں کا دل جیت رکھا ہے کجروال نے سرکاری سکولوں کی حالت بدل دی ہے ،غریب شہریوں کے لئے بجلی کے یونٹ فری کئے ، طلباء کو تعلیمی قرضے دے کر اک نئی روائت ڈالی اور یہ سب یہاں سے سرحد پار بمشکل پانچ سو کلومیٹر دور ہورہا ہے ۔ اور یہ ہم ہیں اور یہ ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف ہیں جب آئی ایم ایف منتوں ترلوں کے بعد محض تین ارب ڈالر کا قرض دینے پربادل نخواستہ راضی ہوا تومیرے وزیر اعظم نے حبس زدہ گرم موسم میں تھری پیس سوٹ پہن کر قوم سے خطاب میں نوید مسرت سنائی کہا کہ قرضہ مل گیا اور ڈیفالٹ کا خطرہ فی الوقت ٹل گیا ہے اس کے کچھ دن بعد کہا کہ دوست ممالک کہتے تو کچھ نہیں ہیںلیکن ان کے چہرے سوال کرتے ہیں کہ کب تک قرض لو گے، شرقپور میں ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں جذباتی ہو گئے کہا کہ مجھے ڈیفالٹ کا سوچ سوچ کر نیند نہیں آتی تھی ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا لیکن کیا کروٹین بدلنا اور خوابگاہ میں بے چینی سے ٹہلنا ہی ہمیں مقصود و مطلوب ہے اور مسائل کا حل ہے ! ہمارے پاس مہلت کم بچی ہے ، ہر طلوع ہوتا دن مزید کمی کر رہا ہے مانا کہ معاشی استحکام، دفاعی استحکام سے جڑا ہوا ہے خالی پیٹ والا بندوق کی لبلبی نہیں دبا سکتا لیکن مورچوں میں توانا اورمضبوط حوالدار کے لئے پیچھے شہروں قصبوں میںصحت مند کلرک کا ہونا بھی ضروری ہے عوام کام کاج کرے گی تو محصول دینے جوگی ہوگی جس سے بندوق میں گولی اور مورچوں تک روٹی پہنچے گی دوٹوک بات یہ ہے کہ عوام کو مزید نچوڑا تو انارکی پھیل جائے گی اب اشرافیہ آگے آئے اورایثار کرے اور پھر عوام سے کہے کہ قرض اتارو ملک سنوارو،سیدھی سی بات ہے ہمیں حکمرانوں میں مہمان کے لئے خود چائے بنانے والی ’’گولڈا میئر ‘‘ اور کئی تقریبات میں ایک ہی جوڑا پہننے والی ’’انجیلامرکل‘‘ چاہئے اقوام متحدہ کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق ہماری اشرافیہ کے اللوں تللوں پر سترہ بلین ڈالر خرچ ہوئے اس پراب فل اسٹاپ لگاناہوگا یہ فل اسٹاپ نہ لگا تو ملک کی ڈولتی کشتی پار نہ لگ سکے گی،وقت کم رہ گیا ہے!