واشنگٹن ڈی سی سے سعودی ائیرلائنزکاایئرکرافٹ:بوئنگ777 جیٹ،6604 میل (10625کلومیٹر)کی طویل مسافت طے کرکے، جدہ پر لینڈ ہوا، تو زائر کو جدہ کے ایئر پورٹ پر "At Arrival Visa"کا ایڈونچردرپیش تھا، جبکہ جدہ سے مدینہ منورہ کی متصل پرواز کے درمیان وقت بھی قدرے محدود تھا، سعودی گورنمنٹ اور سعودی ایئر لائنز کے اپنے ہی قاعدے، ضابطے ہیں۔ ان میں سے حال ہی میں متعارف کردہ ایک سکیم "At Arrival Visa"کی ہے، یعنی اگر آپ امریکہ یا یورپ سے سعودی ایئر لائنز کے ذریعہ جدہ پہنچے ہیں، اور آپ کے پاس "عمرہ ویزہ"نہیں ہے، تو آپ جدہ ایئر پورٹ سے یہ ویزہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کے پاس یورپ یا امریکہ کا ویزہ ہونا او رسعودی ایئر لائنز کے ذریعے سفر لازم ہے۔ دوسرا آپ کے پاس انٹر نیشنل ماسٹر کارڈ جس سے مبلغ /480 ریال ویزہ فیس کی کٹوتی ہوسکے۔ اگر آپ کے پاس یہ ماسٹر کارڈ نہیں ، کسی وجہ سے موقع پر فعال نہ ہوسکا، تو پھر "یَعلارح"یعنی وہاں سے رخصت کئے جانے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ اس ضمن میں نقد ادائیگی قابلِ قبول نہ ہوگی۔ اور پھر جدہ ایئرپورٹ کا سعودی سٹاف کتنا محبت آمیزاور کوآپریٹو ھوتا ھے، اس سے تو زائرین بخوبی آگا ہ ھی ہیں۔ تاہم موجودہ سعود ی حکومت کی جدت طرازی کے سبب، اس نوعیت کے کاؤنٹرز پر بتدریج خواتین سٹاف میں اضافہ ہورہا ہے، جو کہ نسبتاً زیادہ بہتراور "Caring" ہے۔ بہر حال یہ ویزہ جو کہ ایک سال کے لیے ہے، کے مراحل طے کرتے کرتے اگلی فلائیٹ کا وقت بالکل تنگ ہوگیا، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ واشنگٹن سے آپ کا ٹکٹ تو مدینہ منورہ کا ہے اور بورڈنگ کارڈبھی جدہ سے مدینہ منورہ کاجاری ہوا۔لیکن آپ کو جدہ سے اپنا سامان دوبارہ بک کروانا پڑتا ہے، حالانکہ یہ بکنگ ایک ہی دفعہ کافی ہونی چاہیے تھی۔ بہر حال بمشکل مطلوبہ ایئر کرافٹ:ایئر بس تک پہنچنے والا آخری مسافر تھا، سیٹ تک پہنچا ہی تھا کہ جہاز کے دروازے بند ہونے اور سیٹ بیلٹ باندھ لینے کی اناؤنسمنٹ ہوگئی۔ اور میں مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصورات و خیالات میں کھوگیا: اللہ رے خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا تو اْدھر سَرکے بل گیا علامہ اقبالؒ اعلیٰ تعلیم کے لیے، ستمبر1905ء میں، بحری راستے سے لندن روانہ ہوئے، تو ان کا جہاز حجازِ مقدس کی ہواؤں اور فضاؤں میں پہنچا تو ان کیفیت ہی عجیب ہوگئی تھی، جس کوبیان کرتے ہیں کہ:"اب ساحل قریب ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن(جنوبی یمن کا دارالحکومت اور مشہور بندر گاہ)جا پہنچے گا، ساحلِ عرب کے تصوّر نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کردیا ہے، اس کی داستاں کیا عرض کروں، بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔" اے عرب کی مقدس سرزمین! تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کردیا تھا مگر ایک در یتیم نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی --- اے پاک سرزمین!--- تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش! میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوار گی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش! میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سرزمین میں جا پہنچوں ، جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ اقبال کے دل میں حجاز کے سفر کاشوق کیسا تھا: بایں پیری رہ یثرب گرفتم نواخواں از سرور عاشقانہ چو آں مرغے کہ در صحرا سرشام کشاید پر بفکر آشیانہ یعنی اس پرندے کی طرح جوصحرا میں شام کے وقت اپنے آشیانے کی طرف پرواز کرتاھے۔ میں اپنے بڑھاپے کے عالم میں نواخوانی کرتاھوا، مدینہ شریف کی طرف چل پڑا ھوں۔ اقبالؒ قرنطینہ کے سبب اور گرمی کے باعث عدن کی سیر نہ کر سکے اور جہاز ہی میں ر ہے۔ کچھ گھنٹوں بعد جہاز نے لنگر اٹھایااور بحر قلزم میں سے گزرتا ہوا سویز پہنچا--- اور میرا جہاز سیّدْ البلدان مدینۃالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لینڈ کر گیا۔ جدہ سے مدینہ منورہ کا فضائی سفر 212 میل کا ہے۔ جس کے لیے ایک گھنٹہ پانچ منٹ صَرف ہوتے ہیں۔ آصف صاحب کے ساتھ ایئر پورٹ سے پاکستان ہاؤس کی طرف روانہ ہوا، ان کے کاروباری امور اور حالات پر بات چیت شروع ہوئی۔ طویل عرصے بعد کسی سے امور تجارت پر حوصلہ افزا اور تسلی آمیز بات سنی، موصوف کہنے لگے مدینہ شریف کے کاروبار میں اللہ نے بڑی برکت رکھی ہے۔ میں نے کہا، کیسے نہ ہو ؟ ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے خیروبرکت کی دعا فرمائی تھی۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے اس بازار میں مال لا کر بیچے گا، وہ اسی اجر کا مستحق ہوگا،جیسا جہاد کرنے والامجاہد۔ حجازِ مقدس میں مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور طائف مشہورشہر تھے۔ طائف میں زیادہ تر زراعت تھی، تجارت کم تھی، مکہ میں تجارت تھی زراعت نہ تھی۔ مدینہ منورہ اس اعتبار سے پورے خطے میں نمایا ں اور معتبر تھا کہ وہاں تجارت بھی تھی اور زراعت بھی۔ مدینہ منورہ میں انگور اور کھجور کے باغات کے علاوہ کھیت کھلیان بھی تھے، اور دیگر بہت سی پیداواری اجناس بھی۔ یہاں کے مسلمان تجارت میں شریک تھے،لیکن اس میں "Monopoly"یہود کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں کے امور اور معاملات میں ہر ایک کا فرداًفرداً بتدریج جائزہ لیا۔ جوچیز اسلام کے کسی حکم سے متصادم نہ تھی، اْس کی ممانعت نہیں فرمائی، اور اس کو جاری رکھا۔ یہ اسلام کے حکمت تشریع کے بنیادی اصول تھے، کہ معاملات اور تجارت کے باب میں اصل چیز حلّت یعنی کسی چیز کا حلال ہونا ہے نہ کہ حرمت، یعنی لوگ جوکاروبار کرتے ہیں اگر وہ شریعت کے کسی حکم سے متعارض و متصادم نہیں ہے تو وہ کاروبار جائز ہے۔ اس ضمن میں شریعت نے بعض احکام مثبت انداز میں عطافرمائے ہیں۔ سورہ بقرہ، جو ہجر ت کے معًا بعد نازل ہوئی، اس میں تجارت کے بارے میں بعض بنیادی احکام دیئے گئے ہیں،جیسے تجارت آپس کی رضا مندی سے ہو، جائز معاملات میں ہو، اس میں کسی کو دھوکہ نہ دیا گیا ہو، ایک دوسرے کے طیبِ نفس سے، ایک دوسرے کے مال کا تبادلہ کیا گیا ہو۔ جو تجارت ان اصولوں کے مطابق تھی، جائز قرارپائی، جو ان ہدایت کے منافی تھی یا ان میں ان کی خلاف ورزی کا امکان تھا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمادیا۔