اس ملک میں شعور آچکا ہے یا انتشار پھیلایا جارہا ہے اور اس شعور اور انتشار کی جنگ میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار کیا ہے اور چند ذہن ساز دانشور مقبولیت کے دوام میں اس سب کو ہوا دیتے ہیں، اسکا اندازہ حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے بعد آٹھ فروری کو سورج ڈھلتے ہی انتشار طلوع ہونے لگا کیا ،اس شعور اور انتشار کے مقابلے میں ہم ذمے دار صحافت کررہے تھے ،ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی صف بندی ہوسکے ۔آٹھ فروری کو ملک میں انتخابات کا انعقاد ہوا، جس کے نتیجے میں اب ملک میں حکومت سازی کی باتیں ہورہی ہیں، بظاہر صورتحال واضح ہے، ایک طرف خیبر پختونخوا میں مکمل آزاد اراکین کا کنٹرول ہے، تو سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی ناقابل تسخیر ہے، وہاں اینٹی پیپلز پارٹی سوچ کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جیسی صورتحال خیبر پختونخوا میں اینٹی پی ٹی آئی سوچ کو ہے ۔رقبے کے لحاظ سے نصف پاکستان بلوچستان ہے لیکن پارلیمانی سیاست میں نمبر گیم میں ایک چوتھائی تو آدھا چوتھائی بھی نہیں لیکن اس صوبے میں قوم پرست جماعتوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں وفاقی سیاست کرنی والی جماعتوں پیپلز پارٹی نے لیگ جے یو آئی ف اور بلوچستان عوامی پارٹی نے ایسی صورتحال بنائی ہے کہ قوم پرست اکٹھے بھی ہوجائیں تو حکومت درکنار مضبوط اپوزیشن بھی نہیں ہونگے ۔سب سے بڑے صوبے پنجاب آبادی کی بنیاد پر اور سیٹوں کی بنیاد پر ہے تو یہاں زور کا جوڑ پڑا یہاں ن لیگ اور آزاد اراکین کے مابین مقابلہ رہا لیکن ن لیگ کو اپنا بقاء کیلئے دو ہزار اٹھارہ سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جسکی جھلک نتائج میں نظر آتی ہے ،ان انتخابات کی صورت میں پاکستان میں آزاد امیدوار نوے سے زائد سیٹوں پر کامیاب ہوئے ،جسکے بعد نمبر گیم میں ن لیگ دو سری پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر رہی حکومت کون بنائے گا ؟اس سوال سے ہٹ کر کچھ حقائق ایسے ہیں ،جن پر بات کرنا ضروری ہے انتخابات کے روز پولنگ کا عمل مکمل ہوتے ہی چند گھنٹوں میں ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت یا اسکے بیانیے کی فتح ہوچکی ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب ملک میں موبائل فون نیٹ ورک موجود نہیں تھا، انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا تھا تو یہ جماعت نتائج کیسے حاصل کررہی تھی ؟تو کیا یہ طے تھا کہ حالات کچھ بھی ہوں نتائج کچھ بھی ہوں صرف ماحول بنا کر ہر چیز کو یرغمال بنا لینا ہے دو فیصد سے پانچ فیصد نتائج پر لینڈ سلائیڈ وکٹری کا ماحول بن چکا تھا اگر تو مقصد صرف سیاسی ہدف کا حصول ہوتا تو بھی ٹھیک لیکن ہدف سیاسی یہ پارلیمانی نہیں تھا، ایک بیانیئہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ ووٹ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کہ بنیاد پر پڑا ہے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث ہوتی رہی ہے اور ہوگی لیکن ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ،ایک رخ بیانیئے کا ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے دو ہزار چوبیس الیکشن میں 48% ٹرن آؤٹ رہا جبکہ 52% فیصد ووٹرز نے حقِ رائے دہی سے اجتناب برتا۔ان 48% ووٹرز میں 30 سے 35 فیصد نے PTI کے حق میں ووٹ ڈالا۔ یہاں یہ بھی واضح ہے کہ یہ 48% ٹرن آؤٹ 2018 کے الیکشن سے کم تھا،اگر PTI کا 30 سے 35 فیصد ووٹ کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سمجھ لیا جائے جبکہ اصل میں ایسا قطعا نہیں ہے کیونکہ اس میں حلقے کے لیول پر دھڑہ بندی، سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والا مظلومیت کا رونا، مخالف پارٹیوں سے اختلافی نظریات وغیرہ شامل ہیں۔پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں کی کْل تعداد 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ باقی پارٹیوں کو 40 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ اگر 17 لاکھ میں کچھ تناسب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ کو دے بھی دیا جائے تو بھی باقی لوگوں کی رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بیانیئے کی ترویج کرنے والے کیا یہ تسلیم کریں گے کہ 17 لاکھ کے مقابلے میں 40 لاکھ سے زائد ووٹ اسٹیبلشمنٹ کی حمائت میں پڑے؟ وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے مذموم سیاسی مقاصد کی نفی ہو گی۔ اگر ان انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو بظاہر اب بھی چار اکائیوں یعنی صوبوں میں پاکستان تحریک انصاف صرف ایک صوبے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے کچھ حصوں میں مقبول ہے سندھ اور بلوچستان میں اس جماعت کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہے تو کیا سمجھا جائے نصف سے زیادہ یعنی تین چوتھائی پاکستان میں جو جماعت وجود نہیں رکھتی وہ ملک کی بڑی جماعت ہونے کا دعوی کرسکتی ہے ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ مان لیں اسٹیبلشمنٹسمیت تمام قوتوں نے پاکستان تحریک انصاف کیخلاف ہر حربہ استعمال کیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی قوتیں ملکر خیبر پختونخوا اور آدھے پنجاب میں کیوں ناکام رہیں ؟ اگر ملک بھر کے انتخابات غلط ہیں دھاندلی زدہ ہیں تو خیبر پختونخوا کے درست کیسے حقیقت یہ ہے کہ دو ہزار چوبیس میں اور اٹھارہ کے انتخابات کے نتائج ملے جلے ہیں پی ڈی ایم جماعتوں کو سولہ مہینے کی حکومت کا کچھ نقصان ہوا ہوگا تو پی ٹی آئی کو بیانیئے کا کچھ فائدہ ضرور ہوا لیکن مجموعی نتائج اب بھی کم و بیش دو ہزار اٹھارہ سے مختلف نہیں ہاں البتہ ان انتخابات اور اسکے نتائج کے بعد اس جماعت کے پاس ہوئی جہاز اور ہیلی کاپٹر کی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔اسلئے آئندہ چند روز میں جب آزاد اراکین کو حلف کے بعد اپنا فیصلہ کرنا ہوگا تو پھر صورتحال مزید واضح ہوگی اور حال ہی میں علی امین گنڈا پور کی نامزدگی بطور وزیر اعلی خیبر پختونخوا ظاہر کرتی ہے کہ اس جماعت کے ارادے ٹکرائو کی سیاست کے ہیں، اسکے علاوہ کچھ نہیں لیکن خیبر پختونخوا جو ایک دھائی سے اس جماعت کے سیاسی کنٹرول میں اسکا چیلنج اوور ڈرافٹ کا خاتمہ ہونا چاہئے تھا تیز رفتار ترقی ہونا چاہئے تھا تاکہ یہ ثابت کیا جاتا کہ تحریک انصاف کے پاس ویژن اور لیڈر شپ ہے لیکن علی امین گنڈا پور کی نامزدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ کوئی ویژن ہے نہ ترقی کا ماڈل صرف اور صرف سیاسی انا کی جنگ لڑنی ہے۔ جسکے کئے سب کچھ دائو پر لگ جائے کوئی حرج نہیں اب تک کی سیاسی صف بندی میں سندھ بلوچستان میں پیپلزپارٹی پنجاب اور مرکز میں ن لیگ حکومت بنارہی ہیں خیبر پختونخوا صرف پی ٹی آئی کے پاس رہ گیا۔ اب انکی کارکردگی کیا ہوگی اسکا اندازہ عوام کو جلد ہوجائے گا الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر چلنے والی کمپین جس میں الیکشن کو منتازع بنانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی اسکے بعد فارم 45 کو جواز بنا کر الیکشن کو دھاندلی زدہ مذموم کوششوں میں صرف اسٹیبلشمنٹ کو بد نام کرنا اور ملک کو ایک اور المیئے سے دوچار کرنا تھا۔یہ حقائق اِس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم کھلے ذہنوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر چلنے والی مذموم کمپین کی حقیقت جانیں اب اس جماعت نے کیا انتخابی دھاندلی کو عدالت میں ثابت کرنا ہے یا پینتیس پنکچر کے بیانیئے کی طرح یو ٹرن لینا ہے اسکا فیصلہ چند ماہ میں ہوجائیگا لیکن اس بار ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آٹھ فروری کی شام میڈیا نے عدالت کیوں لگائی اور الیکشن کے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے، اب کیا جواب صرف انتشار کی سیاست کرنے والوں کو دیناہے یا جنہوں نے اس ذہن سازی کیلئے کردار ادا کیا ان سے بھی جواب طلبی ہوگی ؟