مشرق کی اہم ترین دانش گاہ اوری اینٹل کالج سے ایم اے اردو کرنے کا تجربہ نہایت حسین اور یادگار تھا۔اولڈ کیمپس کا ہاسٹل ہو یا پھر فوڈ اسٹریٹ کے پراٹھے اور انارکلی کاکتاب بازار،سب کچھ نہایت خوب صورت تھا۔دن تو کلاسیں پڑھنے اور اورینٹل کالج کے مرکزی کتب خانے میں اسائنمنٹ بنانے میں گزر جاتا،شام ہوتے ہی سالِ اول کے ہم خیال دوست اکٹھے ہوتے اور فوڈ اسٹریٹ میںکسی نہ کسی ٹی سٹال پر بیٹھ جاتے ،کلاسیکی ادب سے لے کر معاصر ادبی رجحانات تک،ہر اہم قلم کار اور موضوع زیربحث آتا ایوان ِاقبال،چوپال ناصر باغ اور پاک ٹی ہائوس میں ہونے والی تنقیدی نشستوں کی کاروائی کا بھی تذکرہ ہوتا ،مقبول شاعری بھی موضوعِ سخن بنتی اور نئی کہانی کے مختلف رنگ بھی، تحقیقی و تنقیدی کتب پر بھی یہ سب دوست اپنی اپنی رائے کا ظہار کرتے۔ہم خیال دوستوں کا یہ قافلہ کتاب دوست بھی تھا اور سماج دوست بھی۔ یہ مختلف دھرنوں،جلوسوں اور احتجاجوں میں بھی شریک ہوتے اور کانفرنسوں،ادبی میلوں، مشاعروں اور موسیقی کی محافل میں بھی۔ لاہور کے ہر جشن اور ہر پروگرام میں یہ قافلہ شریک ہوتا۔ضمیر حیدر ضمیر،آفتاب نواب،آفتاب حیدر،بابر رحمان شاہ،نظام الدین خان،منظور جمشید مرحوم،میاں زبیر احمد،عبداللہ عمراور وقار احمد اس قافلے کی جان تھے،راقم بھی اس ہم خیال بزم کا ایک ادنیٰ سا کارکن تھا،ہم سب دوست ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تھے۔ میں اولڈ کیمپس کے ہاسٹل پہنچا تو پہلی ملاقات مشتاق احمد سے ہوئی،انھوں نے اپنے کمرے میں جگہ دی کیوں کہ وولنرہاسٹل (اولڈ کیمپس)میں کمرے کی الاٹمنٹ ایک ’’قومی مسئلہ‘‘ تھا۔ہاسٹل میں اگرچہ بہت سے کمرے خالی تھے مگر انتظامیہ کے بقول ’’ناظم ِ جمعیت کی اجازت کے بغیر نئے طالب علموں کو الاٹمنٹ نہیں ملتی ‘‘ اور ہم نے دیکھا کہ ہاسٹل وارڈن بھی اس’’ جتھے‘‘ کے سامنے بے بس تھا،نئے طالب علم رہائش کے لیے دربدر دھکے کھاتے تھے اور جو کمرے خالی تھے وہاں سینکڑوں ایسے طالب علم رہائش پذیر تھے،جن کے سیشنز ختم ہوئے عرصہ ہوچکا تھا۔ان غیر قانونی رہائش پذیر طالب علموں کا جمعیت سے رشتہ محض ہاسٹل کی رہائش تک ہوتا تھا یا پھر وہ جمعیت کے جلوسوں اور تربیت گاہوں میں صرف اس لیے شریک ہوتے تھے کہ کہیں ہاسٹل سے نکالے نہ جائیں۔ہم بھی جمعیت کے دوستوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے،ان کے مشاعروں میں شریک ہوتے،ان کی دعوتوں میں بھی جاتے مگر جہاں ان سے اختلاف ہوتا،کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے اور ان سے طالب علموں کے بنیادی حقوق کی بات کرتے،اچھے تعلق کے باجود انتظامیہ سے ہمارا اس بات پر ہمیشہ اختلاف رہا کہ ہاسٹل میں غیر قانونی رہائش پذیر طالب علموں کو جمعیت کا آشیرباد نہیں ملنا چاہیے، سب سے پہلے ایسے طالب علموں کو جگہ ملنی چاہیے جو قانونی طور پر حق دار ہیں۔ سال اول میں مجلہ’’سخن ‘‘کی ادارت کا شرف حاصل ہوا،یہ کالج کا شعبہ جاتی مجلہ تھا جس میں صرف شعبہ اردو کے طالب علموں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں،دو سال اس جریدے کی ادارت کی اور پھر الگ ہو گیا،شعبہ اردو کی ایک ’’انجمن ِاردو‘‘ بھی تھی جو تقاریب و ہفتہ وار اجلاسوں کا اہتمام کرتی تھی،مجھے اس انجمن کی طرف سے بہت کم اپنی تخلیقات پیش کرنے کا موقع ملا،آپ اسے میری سستی کہہ سکتے ہیں۔ہاں البتہ الوداعی پارٹی پر اورینٹل کے لیے ایک نظم لکھی تھی،شدیدخواہش تھی کہ الوداعی تقریب میں کالج فیلوز کے سامنے پیش کروں مگر ایسا نہ ہو سکا،عین وقت پر اطلاع دی گئی کہ پروگرام طویل ہو رہا تھا لہٰذافہرست سے آپ کا نام نکلوا دیا گیا ہے ،کچھ دیر کے لیے افسوس توہوا مگر وہاں ایسی باتوں کو نظر انداز کرنا ہی صحت کے لیے اچھا تھا۔ہم خیال دوستوں نے الوداعی تقریب کے بعد کالج کے لان میں ایک نشست رکھی،ہم خیال دوستوں نے اپنی نظمیں اور مضامین پیش کیے اور یوں اس دانش گاہ سے بطور طالب علم ہم سب کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ مجھے سال دوم میں جامعہ کی سٹوڈنٹ کونسل کی طرف سے بین الجامعاتی مقابلہ جات میں بھی شرکت کو موقع ملتا رہا،اس معاملے میں منظور جمشید زیادہ متحرک تھا،وہ پی ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام’’ بزمِ طارق عزیز‘‘ میں بھی جاتا رہا اور دیگر نجی چینلز اور جامعات میں ہونے والے ادبی مقابلہ جات میں بھی شعبے کی نمائندگی کرتا رہا اور کئی ادبی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ افسوس کہ سال دوم میں یہ باکمال تخلیق کار اور ہم خیال دوستوں کی جان داعی اجل کی آواز پر لبیک کہہ گیا۔اس کی ناگہانی موت نے اورینٹل کالج کے اساتذہ اور طالب علموں کو گہرے کرب میں مبتلا کر دیا،ہم آج تک منظور کی موت کو نہیں بھلاسکے،آج بھی کالج فیلوز اکٹھے ہوں تو منظور کی باتیں،شاعری اور کہانیاں یاد کرتے ہیں،اسے اپنی دعائوں کا تحفہ بھیجتے ہیں۔ ۲۰۲۳ء ختم ہو رہا ہے،ہم خیال دوستوں کو اورینٹل کالج سے رخصت ہوئے ایک طویل عرصہ ہو چکا ،غم ِ روزگارنے سب کو الگ کر دیا،کوئی اپنے آبائی شہر چلا گیا تو کوئی لاہور میں رہ گیا،فوڈ اسٹریٹ کی محفلیںبھی اب واٹس اپ گروپ تک محدود ہو گئیں،اولڈ کیمپس ہاسٹل کی کینٹین اور مرکزی لان میں سجنے والی محافل بھی قصہ پارینہ بن چکیں،بقول مجید امجدؔ:میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے؍میں جب اِدھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا۔کل جب اولڈ کیمپس کے وولنر ہاسٹل گیا تو لان میں لگے جھولے پر بہت دیر بیٹھا رہا،سامنے پڑا لکڑی کا بینچ مجھے کئی سال پیچھے لے گیا،کمرہ نمبر ۱۹اور ۱۳۲ میں بھی گیا،نئے دیوانوں کو دیکھا اور خوش ہوا،کینٹین پہ بھی کچھ وقت گزارا،جامع مسجد میں نماز مغرب بھی ادا کی،سنوکر کلب بھی گیا اور لانڈری پہ بھی کھڑا رہا،ٹی وی ہال میں بھی کچھ دیر بیٹھا،میس بھی گیا جہاں دال چاول بنے ہوئے تھے،بیڈ منٹن ہال بھی گیا،ان ساری جگہوں کے بعد کمرہ نمبر ۱۶۸ میں گیا جہاں ہم سب کے عزیز دوست منظور جمشید نے زندگی کی آخریں سانسیں لی تھیں،کیا جانے وہ اس وقت کس اذیت میں تھا،آج بھی یاد کرتا ہوں تو اندر سے چیخ اٹھتاہوں،خدا اس پر اپنا فضل کرے اور میرے خیال دوستوں کو سلامت رکھے۔