تحریک انصاف کی حکومت نے گڈ گورننس اور اپنے عوامی فلاحی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے وفاق میں بڑے پیمانے پر اعلیٰ بیوروکریٹس کو تبدیل کیا ہے۔ قوم لگ بھگ دو برس سے تبدیلی کی آس اور اچھے دنوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں مگر بدقسمتی عوام کو ماسوائے بیوروکریسی کے تبادلوں کے تبدیلی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ معاشی بحران کے نتیجے میں روپے کی قدر 35 فیصد کم ہونے اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ عوام ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے نڈھال ہیں تو سرکاری اداروں کے ملازمین ایک کے بعد ایک احتجاج اور دھرنے دینے پر مجبور ہیں۔ حکومت ہے کہ ہر احتجاج کے بعد عوام کو افسر شاہی کی تبدیلی کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا پانچ آئی جی تبدیل کرنا اس کا ثبوت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتوں کو اپنے منشور پر عملدرآمد، ترجیحات اور اہداف کے حصول کے لئے اپنی ٹیم بنانے کا حق ہوتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اگر ایک افسر کو ایک جگہ سے ہٹاتی ہے تو وہ دوسرے ادارے میں کام پر لگ جاتا ہے۔ اس طرح یہ اکھاڑ پچھاڑ مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتی۔ اب جب حکومت نے وفاق اور صوبے میں کم و بیش ساری سرکاری مشینری ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے ایجنڈے پر توجہ دے گی جو گڈ گورننس کے بغیر ممکن نہیں۔