مارے جائیں نہ بدگمانی میں دو ہی کردار ہیں کہانی میں میں نے خواتین کے عالمی دن پر کچھ نہیں لکھا تو دعا علی نے پچھلے برس کا لکھا ہوا میرا کالم پوسٹ پر لگا دیا۔ یہ دن صرف خواتین کا ہی نہیں ہمارا بھی ہے۔ دوسری بات یہ کہ خواتین کا ہر دن ان کا ہے بلکہ رات دن انہی کے اشارے سے بدلتے ہیں۔ آپ اسے حسن تعلیل کہہ لیں مگر ہے تو یہی کہ ’’وجود زن ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ یہ بات بتائی تو ایک مرد اقبال نے۔ یہ کوئی بہار جیسا خیال ہے جس میں حسرت موہانی کا مصرع معنویت پاتا ہے۔ دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام’’کلی ٹہنی پہ مہکتی ہے اور جھولتی ہے اور پھر ’’صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے‘‘ مجھے سچ مچ خواتین کے عالمی دن پر کچھ خواتین کے ہاتھوں میں بینرز اور پوسٹرز دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان پر ایسے ایسے نعرے درج تھے کہ الحفیظ والامان۔ ایک پر تو لکھا کہ ’’شادی نہیں آزادی‘‘ تیسرا قافیہ آبادی کا ہو سکتا تھا۔ اور خیال تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ معاشرتی بندھنوں سے آزادی۔ ویسے یہ بڑی جرأت اور بے زاری کی بات ہے کہ ’’موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں‘‘ میں مادر پدر کی آزادی کی بات نہیں کروں گا۔ اگرچہ اس ہائو ہو کا سیدھا سادا مطلب یہی تھا۔ جیسی آزادی کی طلب میں وہ دہری تہری ہو رہی رہی تھیں وہ تو کسی مرد کو بھی وارا نہیں کھاتی۔ ایک حد پر جا کر تو جون ایلیا نے کہہ دیا تھا: مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں ایسے ہوتا ہے خاندان میں کیا عورت کے ساتھ پورا گھرانہ بندھا ہوا ہے اس کے ساتھ خاندان کی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں، وہی تو گھر کا مرکز ہے۔ پوری نسل اس کے ہاتھ پر پروان چڑھتی ہے۔ اس کا روپ سوہنا ہے وہ تقدس اور تقدیس کا نشان ہے وہ جہد مسلسل کا استعارا ہے‘ سمندر کے کنارے اور صبح کا ستارا ہے ایسے مرد کے ساتھ آسمان سے اتارا گیا، وگرنہ زمیں سے زیادہ تنہا اوراداس جگہ کوئی نہ ہوگی۔ شیطان نے بہکایا مرد نے دانہ کھایا اور کھایا بھی اس کے کہنے پر اور جب وہاں سے نکالے گئے تو مرد نے ساتھ نبھایا۔ ویسے بھی تو عورت اس کی پسلی سے پیدا ہوئی۔ مٹی تو وہی ہے تخلیق میں کچھ کچی سہی۔لگتا ہے ایک مرتبہ پھر انہیں شیطان بہکا رہا ہے۔ پھر وہ ممنوعہ چیزوں کی طرف جانا چاہتی ہے یا لے جانا چاہتی ہے،مرد پھر تیار ہو جائے گا مگر اب کے انہیں پھینکا کہاں جائے گا ۔ معزز قارئین یہ شعر بھی لکھا جا سکتا تھا کہ: مجھے کیا جو تونے تنگ آ کر چاک کر ڈالا ترا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریباں تھا ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’لاچھڈی لوئی تے کیہ کرے گا کوئی‘‘ جس نے حیا چھوڑ دی پھر وہ جو کچھ بھی کرتا پھرے۔ اس کا عملی نمونہ لوگوں نے آٹھ مارچ کو فرسٹیٹڈ اور لسٹڈ خواتین کی حرکتوں میں دیکھ لیا ان پر لگے ہوئے پیسے نے انہیں یکسر بدل کر رکھ دیا۔ تبھی تو انہوں نے بینر اٹھا لئے’’میرا جسم میری مرضی‘‘ ایک نے لکھا میں اکیلی بدچلن‘ معاً مشتاق احمد یوسفی کا ایک جملہ یاد آیا’’خاتون کی چال سے اس کے چال چلن ٹپکتے تھے۔ ہائے ہائے انہیں کیا ہو گیا۔ جب مظلوم ظالم بن جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں تو انہوں نے ظلم بھی اپنے آپ پر کیا ہے’’قہر درویش بر جان درویش‘‘ کی صورت آئینہ ٹوٹا تو ہر کرچی میں تصویر۔ ان عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ انہوں نے مرد بننے کی کوشش کی اور اپنی چال انہیں بھول گئی۔ مجھے ایک مقرر کی تقریر کا ایک جملہ یاد آ گیا کہنے لگا’’مجھے تقریر کرنا اس جماعت نے سکھایا ہے جس نے غنڈہ گردی کا جواب ظلم و بربریت سے دیا ہے۔ ’’خود کو بازار میں لانے کی ضرورت کیا تھی‘‘ ان چند گمراہ عورتوں نے پوری خواتین برادری کا سر جھکا دیا کہ کیا عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔ لوگ ان مردوں پر حیران ہیں جو ایسی خواتین کے ساتھ تھے۔ اگر خواتین ایسی ہو سکتی ہیں تو مرد ایسے کیوں نہیں ہو سکتے‘ دونوں کی پرواز جو ایک ہے۔ دونوں کی ایک ہی منزل ہے کہ جہاں ’’بندہ نہ بندے دی ذات ہووے‘‘ یہ لوگ اپنے بھی اختیار میں کب ہیں ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں اک تماشا ہے: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشا بنا دیا متذکرہ خواتین حقوق نسواں کی بات نہیں کرتیں یہ مردوں سے حقوق چھیننا چاہتی ہیں۔ ایسا وقت وہ لانا چاہتی ہیں کہ مرد چیخ اٹھیں کہ انہیں عورتوں کے برابر حقوق دیے جائیں۔ وہ ساری حدود پار کر کے پریشان ہیں کہ اب کیا کریں۔وہ خود کفیل بھی نہیں ہیں اور دوسرے کو کفیل ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ کیسی مہم جوئی ہے کہ اپنا ہی لبادہ تار تار کر دیا جائے۔ یہ کجی بیمار ضرور ہو سکتی ہے۔ یہیں آ کر تو اسفل سافلین کے معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ ناآسودہ خواہش کا یہ سفلی اور گھٹیا اظہار تو یہ ہے تو میں اور ڈر گیا کہ سچ مچ کی لبرل خواتین بھی چیخ پڑیں کہ یہ ٹولہ کہاں سے آیا ہے اسے کس نے ورغلایا ہے یا بہکایا ہے۔ سوشل میڈیا پر اتنا گند تو کبھی کسی نے نہ پھینکا۔ دیکھیے اگلا مرحلہ کیا ہو۔ یقینا انہیں اس بات کا دکھ بھی ہے کہ ان اس بولڈ اظہار کو رد کیوں کر دیا گیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے قرآن و سنت کے احکامات کے خلاف کیا۔ یہ ماننا تو ان کے لئے ہے جو قرآن و سنت پر یقین رکھتے ہیں یہ لوگ تو دشمن ہیں یا دشمنوں کے دوست۔ جب اندھے جذبے اور خواہشات پاگل کر دیں تو پھر مت ہی ماری جاتی ہے اب انہیں کون بانو قدسیہ کی بات بتائے کہ انہوں نے اپنے میاں اشفاق صاحب کی اطاعت کر کے محبت پائی اور ایک کامیاب زندگی کی مثال دکھائی۔ وہ کہتی تھیں کہ انہوں نے اشفاق صاحب سے ایک قدم پیچھے رہ کر اور گھرداری کر کے اپنی ذمہ داری اور رول نبھایا۔ آخر یہ خواتین کیوں وہ کام کرنا چاہتی ہیں جو کام ان کے ہیں ہی نہیں اور جو ان کو قدرت نے تفویض کیا ہے وہاں سے وہ فرار چاہتی ہیں۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کے ذہن اور باطن کو تو استعمال ہی نہیں کیا گیا اور وہ خود بھی تفکر کرنے سے عاجز اور غافل ہیں۔ عورت میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں تبھی تو وہ کتنے رشتوں کو خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے۔ مرد اور عورت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ مجھے تو یاد ہے کہ جب میری شادی ہوئی تو بیگم صاحبہ نے حقوق نسواں کی بڑی باتیں کیں اور برابری کے دعوے۔ جب رات بیت چلی تو کہنے لگی ’’باہر بجلی چمک رہی ہے ساتھ چلو باہر سے کپڑے اتار لائیں‘‘ میں نے کہا’’اکیلی جائو‘‘ قہقہہ لگا کر کہنے لگی برابری کی تو باتیں ہیں میں بالکل نہیں جائوں گی۔ میں نے کہا ’’میری کالی جیکٹ پہن کر چلی جائو‘‘ کہنے لگی’’اچھا جان چھڑانا چاہتے ہیں آپ‘‘ یہ مزے مزے کی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ چلیے ایک شعر آپ کی نذر اور: اس نے پہلے سعدؔ کہا تھا پھر سب اس کے بعد کہا تھا