جاپان کی ایک نوجوان ناول نگار سکایا موراتا کہتی ہیں کہ " کہانی لکھنے کے عمل نے میری زندگی کو بچایا،تصوراتی کرداروں نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا۔وہ کہتی ہیں کہ کوئی کمی ہمارے اندر ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے ہم لکھنے لگتے ہیں"۔نامور ادیبہ محترمہ بلقیس ریاض کی زندگی کے تمام خانے بظاہر زندگی کی آسائشوں سے بھرپور اور چمکتے ہوئے ہیں مگر بعض اوقات کسی چیز کی زیادتی سے بھی زندگی میں کچھ کمی ہونے لگتی ہے اور شاید یہی وہ نامعلوم کمی ہے جو ہر تخلیق کار کی زندگی میں ہوتی ہے اور جسے پورا کرنے کی تگ و دو میں وہ فن پارے تخلیق کرتا ہے۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ کس چیز نے ان کو زندگی میں لکھنے کے عمل کو اتنے مستقل مزاجی سے اپنانے پر آمادہ کیے رکھا۔ وہ ممتاز شاعر نجیب احمد کی پھپھو ہیں تو سوچا کہ بات سمجھ میں آئی کہ حرف و لفظ سے تعلق ان کا وراثتی اثاثہ ہے۔بلقیس ریاض صاحبہ کے افسانوں اور سفر ناموں سے ہماری ملاقات بہت پرانی ہے اس وقت جب میں ابھی سکول کی طالبہ تھی۔ ایک معاصر اخبار میں ان کے سفر نامے اور افسانے اور ناول باقاعدگی سے چھپا کرتے تھے اور میری امی جان بھی ان کی مستقل قاری تھیں۔ اس سے پہلے میں نے اپنی خلد نشیں والدہ کو رضیہ بٹ کے ناول پڑھتے ہوئے دیکھا تھا انہوں نے اے آر خاتون کے ناول بھی پڑھ رکھے تھے۔ وہ اپنے دور کے رسالوں شمع ، زیب النساء اور حور کی بابت بھی ہمیں بتایا کرتیں۔سوچتی ہوں کہ اگر میری والدہ نے رضیہ بٹ ،بلقیس ریاض کے افسانے ،پھر حور، زیب النسا،اور شمع رسالے نہ پڑہے ہوتے تو وہ مجھے اور میری بہن کو بخوشی شعاع، اور خواتین ڈائجسٹ پڑھنے کی اجازت نہ دیتیں۔ وہ خود پڑھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ کہانیاں انسانی رشتوں میں گندھی زندگی ہی کے مختلف رنگ ہوتی ہیں۔یہ میرا افسانوی ادب سے جڑنے کا پہلا زینہ تھا اسی نے ہمارے ذوق کی آبیاری کی۔ادب پڑھنے کا آغاز پاپولر فکشن پڑھنے سے ہی ہوتا ہے۔ اگر میری والدہ بطور قاری افسانوی ادب سے نہ جڑی ہوتیں تو شاید میں آج یہ کالم ہی نہ لکھ رہی ہوتی۔ اس کا کریڈٹ میری والدہ کو جاتا ہے جنہوں افسانوی ادب پڑھنے اور لکھنے میں میری حوصلہ افزائی کی اور میری والدہ کے ذوق ادب کی آبیاری کرنے کا سارا کریڈٹ ان عظیم لکھاری خواتین کو جاتا ہے جنہوں نے گھر داری کرتی ہوئی عام خواتین کے لیے بھی دل پذیر ادب تخلیق کیا۔ محترم سجاد میر نے ایک جگہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ" آنہ لائبریری کے زمانے میں خواتین کے لکھے ہوئے ناول بہت مقبول ہوتے جنہیں خواتین کام کاج کرتے ہوئے پڑھتی رہتیں۔ باورچی خانے میں سالن میں ڈوئی چلاتے ہوئے جب کچھ کرنے کو رکتیں تو ناول کے صفحات پر ڈوئی رکھ دیتیں"میری والدہ کی جنریشن میں خواتین کے لیے لکھا جانے والا افسانوی ادب پڑہنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے اور کتاب سے جوڑنے کے لیے ان تمام لکھاری خواتین کا بہت ہاتھ ہے، جنہوں نے اس وقت ہاتھ میں قلم تھاما اور کہانیاں لکھنی شروع کیں جب خواتین کا لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ صرف ہمارے روایتی سماج کی بات نہیں ہے بلکہ مغرب میں بھی جب جین آسٹن اور اور براؤنٹے سسٹر نے لکھنا شروع کیا تو اس وقت انہیں بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ براونٹے سسٹرز نے انیسویں صدی میں اس وقت ناول لکھنا شروع کیے جب خواتین کا لکھنا معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔شارلٹ براؤنٹے نے اس وقت ادب کے ایک دو اہم نقادوں کو خط لکھا کہ ان کا خواب ہے کہ وہ لکھنے کو بطور پیشہ اختیار کریں۔اس کے جواب میں جو خط انہیں ملا اس میں حوصلہ افزائی کی بجائے کہا چونکہ تم ایک خاتون ہو تمہارا کام یہ نہیں ہے کہ تم اپنی انگلیاں سیاہی میں خراب کرو۔ عورت کا کہانی لکھنا اور اپنی ذات کو اظہار کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بلقیس ریاض بھی اسی قبیلے کی فرد ہیں بطور لکھاری ان کا سفر گزشتہ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کی سفر ناموں اور ناولوں کی 50 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق سماج کے پریولجڈ طبقے سے ہے مگر انہوں نے صرف " بیگماتی" زندگی گزارنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اندر کے لکھاری کو اپنے ساتھ رکھا۔ بلقیس ریاض کی ناولوں اور افسانوں کی دنیا۔حسن ،خوبصورتی، سادگی سے بھرپور،خود ان کہ اپنی شخصیت کا عکس ہے۔ ان کی کہانیوں کے رومانوی کردار بھی انہی کے سماجی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ جہازوں میں سفر کرتے ہیں، پرآسائش گھروں میں رہتے ہیں لیکن زندگی کرتے ہوئے اور خواب اور خواہشات کے راستوں سے گزرتے ہوئے اپنے حصے کے دکھ اٹھاتے ہیں اور پھر احساسات کہ مد و جزر سے گزرتے ہیں۔یہ بالکل سادہ اور رواں کہانیاں ہیں جو چلتے پھرتے پڑھی جاسکتی ہیں یہی ان کا سب سے بڑا کمال ہے۔پاکستان کی 80 فیصد عام گھریلو خواتین کو افسانوی ادب سے جوڑے رکھنا کوئی عام بات نہیں۔ وہ فلسفیانہ ،بوجھل ، بھاری بھرکم تحریریں نہیں لکھتیں بلکہ دل میں اترتی سادہ زبان میں کردار بنتی ہیں روز مرہ زندگی کے کردار انسانی رشتوں کی مہک سے ڈھلے ہوئے واقعات ان قاری خواتین کے لیے بیان کرتی ہیں جو روزمرہ زندگی اور گھرداری کے معاملات نپٹاتے نپٹاتے کچھ وقت افسانوی ادب کے ساتھ تصوراتی دنیا میں گزارنا چاہتی ہیں ان کے لیے بلقیس ریاض کے یہ افسانے کسی خوبصورت اور حسین مقام کی سیر سے کم نہیں ہیں۔ان کے سفرنامے خواتین و حضرات دونوں میں مقبول ہیں۔اپنے شوہر نامدار کے ساتھ مختلف ملکوں کے سفروں پہ جاتی رہی اور وہاں نئی جگہوں کو دریافت کرتیں اور سادہ اور دل نشین پیرائے میں کئی ملکوں سفر نامے لکھ چکی ہیں۔سال ہاسال سے وہ ایک قومی روزنامے سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتی ہیں ۔ سابق چیف جسٹس کی اہلیہ ہونے کی حیثیت سے پرآسائش زندگی اور سرکاری کروفر کے باوجود اپنے لیے کاغذ کی تنہائی کو چننا اور اتنی مستقل مزاجی سے لکھتے رہنا حیران کن ہے جو یقیناً ان کے اندر کے اس تخلیق کار کا فیصلہ ہے جو اظہار کے لیے ہمہ وقت مضطرب اور بے چین رہتا۔ان کی 50 کتابیں اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں۔بلقیس ریاض صاحبہ آپ کو حرف و لفظ سے جڑے ہوئے اس مستقل اور شاندار تخلیقی سفر پر دلی مبارک باد!۔