پاکستان میں مدارس کی بحث میں عمومی طور پر مذہبی اور سکیورٹی معاملات کا ہی ذکر آتا ہے ہمارے پالیسی ساز یہاں تک کہ ماہرین تعلیم مباحثوںمیں مدارس کے تعلیمی پہلوئوں پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی مدارس پاکستان کی آبادی کی 15فیصد تعلیمی ضرورت پوری کرنے کے باوجود بھی ملک کے تعلیمی نظام میں کوئی خاص مقام نہیں بنا پائے۔ البتہ عظمت عباس نے اپنی کتاب madrassah Mirage-a contemporary history of Islamic Schools in Pakistan میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے انہوں نے اپنی کتاب میں مدارس کے بارے میںبات کرتے ہوئے اسے ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ حکومتی پالیسی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ عظمت عباس دو دہائیوں تک بطور صحافی مدارس اور عسکری تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد تحقیقی مضامین ان کے کریڈٹ پر ہیں ’’مدارس کا سراب‘‘ میں ناصرف ان کی ماضی کی تحقیق کا نچوڑ ملتا ہے بلکہ کتاب میں تازہ اعداد و شمار کا حوالہ بھی موجود ہے وہ اس عام تاثر سے متفق نہیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت میں اضافہ کی وجہ مدارس ہیں۔ بلکہ الٹا ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی بڑھتی آگ سے سب سے زیادہ دینی تعلیمی ادارے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ برطانوی راج میں مدارس کو دانستہ طور پر صرف مذہبی تعلیم تک محدود رکھا گیا تاکہ ان کو زیر تسلط رکھ کر نظام تعلیم پر غالب آنے سے باز رکھا جا سکے۔ قیام پاکستان کے بعد حکومتیں بھی سامراج دور کی اس فکر کو تبدیل کرنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے اس ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کی افسر شاہی اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی طبقہ کو قرار دیا ہے۔ عظمت عباس کے مطابق پاکستان میں مدارس اصلاحات کی ناکامی کی وجوہات سیاست اور اخلاص کی کمی تھی۔ اس حوالے سے اگر ریاست عوام کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہی تو دوسری طرف پرائیویٹ اور سیکولر تعلیمی اداروں نے بھی ملک میں مدارس میں اضافہ کیلئے ماحول سازگار کیا ۔انہوں نے مدارس کے بارے میں سکیورٹی کے حوالے سے مخصوص فکر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مدارس کو تعلیم کے تناظر میں دیکھنے اور اسی تناظر میں تعلیمی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے دلائل میں کہتے ہیں کہ حکومت عام طور پر مدارس میں اساتذہ کی تعلیمی اہلیت اور نصاب پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ ریاست کے اپنے تعلیمی اداروں میں بھی زمینی حقائق اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں اصلاحات ایک مربوط عوامی تعلیمی نظام کی غیر موجودگی میں بے سود ہوں گی۔ کتاب میں ’’مبہم اعداد‘‘ Confusing -numbers کے باب میں دیے گئے اعداد و شمار ایک بار پھر حکومتی ناکامی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مدارس میں بے تحاشااضافے کی وجہ بھی حکومت کے پاس مانیٹرنگ اور رجسٹریشن کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے مسئلہ مزید بڑھا ہے۔ اس باب میں پاکستان میں مدارس کی تعداد میں اضافہ کے حیران کن اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں کہ 1947ء میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں کو ملا کر 150مدارس تھے۔ البتہ اس وقت کی صوبائی حکومتوں کے روبکارکو بھی اگر شامل کیا جائے تو یہ تعداد 245سے زیادہ نہیں۔ عظمت نے ملک بھر میں موجود مدارس کا ڈیٹا مرتب کرنے اور ان کی مانیٹرنگ کی تجویز دی ہے۔ کتاب میں ایک اور دلچسپ باتMoney Matters ’’مالی معاملات‘‘ ہیں۔ ملک میں خیرات کے حوالے سے حیران کن اعداد و شمار مہیا کئے گئے ہیں۔ مصنف مدارس کو فنڈنگ کے مختلف ذرائع زکوٰۃ ‘خیرات‘ قربانی کی کھالوں سے حاصل ہونے والی آمدن سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ مدارس کو فنڈنگ کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق مخصوص مسالک کے فروغ کیلئے غیر ملکی فنڈنگ بھی آتی ہے۔ ان کے نزدیک مدارس کی سیاسی مقاصد کے لیے فنڈنگ اور مذہبی حلقوں کی جانب سے مدارس کی فنڈنگ کا آڈٹ کروانے سے انکار کی وجہ سے بھی مدارس کے حوالے سے معاشرہ میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ریاستی سطح پر ذرائع آمدن اور استعمال کی مناسب مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے معاملات مزید الجھ جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مدارس کی انتظامیہ کا موقف بھی پیش کیا ہے کہ مدارس کو فنڈنگ کرنے والوں کی ملکی اور غیر ملکی اکثریت اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔ عظمت نے کچھ تفاصیل مہیا کی ہیں جن کے مطابق پاکستانی کل آمدن کا 11فیصد یا 26ارب روپے عطیات دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق یہ فنڈز 30فیصد اور 71ارب روپے ہیں۔ جبکہ خیرات کی شرح 14فیصد یا 35ارب روپے ہے۔ عشر کی مد میں 6فیصد حصہ یا 14ارب روپے‘ دو فیصد یا 5ارب قربانی کے جانوروں کی کھالوں کی مد میں اور خانقاہوں کو ملنے والے ہدیہ کل پیداوار کا 3فیصد یا 6.5ارب روپے ہے۔ اس طرح اگر ان تمام فنڈز کو جمع کیا جائے تو پاکستانی سالانہ 83ارب کی خطیر رقوم عطیات کی مد میں صرف کرتے ہیں۔ اس حوالے سے عظمت عباس کی تصنیف نمایاں اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس کتاب میں سیاسی اقتصادی موضوعات کو سکیورٹی کے بجائے تعلیمی حوالے سے موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ عظمت عباس اپنی تحقیق کو مزید آگے بڑھائیں گے۔