چھاچھرومیں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دشمن نے کوئی حرکت کی تو پاکستان جوابی کارروائی کرے گا۔ انہوں نے بہت واضح لفظوںمیں کہا کہ ’’بھارت ہو یا سپر پاور کوئی ہمیں غلام نہیں بنا سکتا۔ ہم امن چاہتے ہیں‘ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہماری فوج اور عوام تیار ہیں‘‘۔ پاکستان سیاسی اور سفارتی سطح پر مسلسل جنگ مخالف موقف اپنائے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم ‘ وزیر خارجہ اور سفارتی مشینری نے دنیا بھر کی اہم شخصیات اور بااثر ممالک سے رابطہ کر کے اس سلسلے میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ پاکستان کے موقف اور امن پر مبنی بیانئے کو عالمی برادری قابل تحسین قرار دے رہی ہے۔ وہ ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے تعلق بوجوہ پہلے جیسے مثالی نہیں رہے وہ بھی پاکستان کے گن گاتے نظر آ رہے ہیں۔ پلوامہ خودکش حملے کے بعد بھارتی حکومت نے منصوبہ بندی کے تحت دونوں ممالک کے درمیان جنگی کشیدگی کو ابھارا۔ بالاکوٹ کے جنگل میں بم گرانا پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور جارحانہ اقدام تھا۔ یہ بات بڑی آسان تھی کہ پاکستان اپنے میزائلوں کے ذریعے بھارت کو اس کی زبان میں جواب دیتا مگر پاکستانی قیادت نے ایسا نہیں کیا۔ اپنی خود مختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لئے کارروائی کی نوعیت اور پھر اس پر عالمی ردعمل کو ذہن میں رکھ کر پاکستانی شاہینوں نے دن کی روشنی میں بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو زندہ گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی نے بھارت کو تلملا دیا۔ پاکستان نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور بھارت کو انتباہ کرنے کے بعد ونگ کمانڈر ابھی نندن کو رہا کر دیا۔ اس اقدام سے بھارتی طیارے گرنے کے بعد بھارت کو شرمندگی کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے اس اخلاقی دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس نے پاکستان کے طرزعمل کو درست اور بھارتی سوچ کو امن دشمن قرار دیدیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں پاک بھارت کشیدگی نمایاں انداز میں جگہ پا رہی ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا ملک کشمیر اور کشمیریوں کا ذکر ایک مظلوم قوم کے طور پر کرے مگر ان دنوں روس‘ ترکی‘ اردن‘ برطانیہ‘ چین‘ ایران ‘ سعودی عرب اور قطر نے کشمیر کے معاملے کو پاک بھارت کشیدگی کی اہم وجہ قرار دیکر بھارتی موقف کی نفی کی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی اور پھر فضائی و زمینی جھڑپوں کے دوران خفیہ اداروں کو تین ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی کا علم ہوا۔ پاکستان کا ایٹمی و میزائل پروگرام اس کی مسلم دنیا میں طاقت اور اثرورسوخ کا ذریعہ ہے۔ ہر بحرانی دور میں پاکستان کی مدد کرنے والے مسلمان ممالک کے ساتھ ہمارے دفاعی تعلقات مستحکم ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک سپر پاور اس منصوبے کا حصہ تھی۔ کچھ حلقوں کی رائے میں پاکستان نے بھارتی طیارے گرا کر تینوں ممالک کو پیغام دیا ہے کہ وہ جہاں اور جس طرح کی منصوبہ بندی کریں گے پاکستان ان کے عزائم مٹی میں ملا دے گا۔ وزیر اعظم کا حالیہ بیان ایک جلسہ عام کے سامنے کی گئی عمومی سی تقریر نہیں بلکہ انہوں نے کھل کر سپر پاور کے الفاظ استعمال کر کے کہا کہ ہمیں کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ریاست پاکستان کا اعلان ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ساتھ مذاکرات میں عالمی برادری کے تحفظات پاکستان تک پہنچے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان نے بھی ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بین الاقوامی برادری کے سامنے کچھ مسائل رکھے ہیں۔ یقینا داعش‘ القاعدہ یا ایسی دیگر تنظیموں اور گروہوں سے خطے کی سلامتی کو خطرہ ہے مگر یاد رہے کہ امریکہ کی طرف سے بعض ایسی تنظیموں کو بھی دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے جو صرف کشمیر کی تحریک آزادی کا حصہ ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اسے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنے فرائض انجام دینا ہیں۔ حالیہ دنوں مختلف علاقوں سے ایسے 50کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن پر شدت پسند سرگرمیوں میں کسی نہ کسی حوالے سے شرکت کا شبہ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان کے ایک وفد نے پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے ساتھ بات چیت میں یقین دلایا کہ وہ فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جماعت الدعوہ کو کالعدم قرار دیدیں گے۔ گزشتہ ہفتے یہ وعدہ پورا کر دیا گیا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں ‘ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ سٹیٹ بنک آف پاکستان‘ نیکٹا‘ فنانس مانیٹرنگ یونٹ اور دیگر تمام تحقیقاتی ادارے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں یا گروپوں کے اثاثوں اور ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کئی اداروں کا انتظامی کنٹرول سرکاری ایڈمنسٹریٹر سنبھال چکے ہیں۔ کچھ حلقوں کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پر کارروائیاں اگرچہ ایک مشکل کام ہے مگر اس پر منصوبہ بندی کے ساتھ عمل کیا جائے تو بھارت کو پاکستان کے خلاف اختیار کردہ بیانیہ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ مودی حکومت یہ پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیر‘ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں پاکستان نان سٹیٹ ایکٹرز کو استعمال کرتا رہا ہے‘ یقینا امریکہ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان میں پھیلائی مخصوص انداز کی شدت پسندی بے قابو ہو کر مسائل پیدا کرتی رہی ہے مگر یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بڑی حد تک صورت حال پر قابو پا لیا ہے۔ اسی وجہ سے ریاست پاکستان کا لہجہ پراعتماد ہے۔ پاکستان توقع کرتا ہے کہ عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے خطے میں کشیدگی کا باعث بننے والے تنازع کشمیر کو حل کرنے میں مدد فراہم کر کے اپنے انسان دوست ہونے کا ثبوت دیں گے۔