اللہ خوش رکھے ڈاکٹر صفدر محمود اور اظہار الحق کی دو تحریریں میرے لئے آج وسیلہ مسرت بنی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کالموں کی تازہ کتاب مرے سامنے دھری ہے جسے میں چسکے لے لے کر پڑھ رہا ہوں۔ تاہم میری یہ تحریر اس کتاب پر تبصرہ نہیں ہے بلکہ محض اس خوشی کا اظہار ہے جو مجھے اسے پڑھنے میں حاصل ہو رہی ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو تو خیر بعد میں کروں گا خلاصہ صرف یہ عرض کردوں کہ ہمارے ہاں کے بگڑے ہوئے دانشور تحریک پاکستان ‘ قائد اعظم اور اقبال کے بارے میں جتنی بھی غلط باتیں کرتے ہیں ان سب کا تسلی بخش جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ یہ دراصل ان کالموں کا انتخاب ہے جو ڈاکٹر صاحب نے ان بر خود غلط دانشوروں کا تعاقب کرتے ہوئے لکھے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک تازہ کالم میں کسی ایسے دانشور کا ذکر کیا تھا جو سویڈن سے آ کر زہر پھیلا رہا ہے۔ اس کام کے لئے پاکستان میں اب ایک درسگاہ بھی قائم ہو گئی ہے جو روشن خیالی کے نام پر ہر ایسے دانشور کے لئے راہ ہموار کرتی ہے جن کام ہی ہر اس بات کی نفی کرنا ہے جس میں اسلام اور پاکستان سے محبت جھلکتی ہو۔ ہم ایک طویل عرصے سے اس گروہ کی سرکوبی کے لئے تیار بیٹھے ہیں‘ تاہم اس وقت میڈیا اور تعلیمی اداروں کا ایک بڑا حصہ یوں لگتا ہے اس ایجنڈے کی حمایت میں ڈٹا ہوا ہے جن کا مقصد ہی ہماری تہذیبی اقدار کو پامال کرنا ہے۔ اس ملک میں بایاں بازوتو کوئی فکر و فلسفہ رکھتا تھا جن سے ہم نمٹ لیتے تھے۔ مگر یہ لوگ صرف ایک ایجنڈا رکھتے ہیں اور کچھ نہیں۔ خیر میں ڈاکٹر صفدر محمود کے تازہ کالم کا تذکرہ کر رہا تھاجس میں سویڈن سے آئے کسی دانشور کی دریدہ دہنی کا ذکر تھا۔فون کر کے معلوم کیا کہ آپ کا اشارہ کس ذات شریف کی طرف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل بتائی اور ایک کالم کا بھی حوالہ دیا جو برادرم اظہار الحق نے اس ذات شریف پر لکھا تھا۔ اس وقت تو میں ان کیفیات کو صفحہ قرطاس پر لے آیا جو اس پس منظر میں طاری ہوئی تھیں۔پھر اظہار الحق کو فون کر کے زحمت دی کہ وہ رہنمائی فرمائیں۔ انہوں نے ازراہ عنایت اپنا یہ کالم ہی بھیج دیا۔ اس میں اس ذات شریف کے بارے میں جو تفصیلات ہیں وہ نئی نہیں ہیں‘اس ملک میں نام نہاد دانشوروں کا ایک پورا طائفہ موجود ہے جو ایسی بے تکی باتیں کرتا رہتا ہے۔ تاہم یہ معلوم ہوا کہ موصوف خود کو پبلک انٹلکچوئل کہتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ مجھے تو وہی بات کرنا ہے جو سچ ہو، چاہے کسی کو برا لگے۔ یہ دلیل دے کر آپ اپنی بات کا وزن نہیں بڑھا سکتے۔اس کے لئے آپ کو واضح جواز پیش کرنا ہو گا بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات عرض کرتا جائوں کہ یہ پبلک انٹلکچوئل بھی ایک خوب اصطلاح ڈھونڈ نکالی ہے ان لوگوں نے۔ ایک بار سیاست کے عروج پر ایک امریکی جریدے نے ایک پاکستانی شخصیت کو پاکستان کا نمبر ایک پبلک انٹلکچوئل قرار دیا تو سٹپٹا گیا۔ وہ اچھے قانون دان ہیں‘ اچھے سیاستدان ہیں ادب و فلسفے کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ مگر یہ پبلک انٹلکچوئل کیا ہوا۔ یہ کس بلا کا نام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دنوں جسٹس افتخار چودھری کی تحریک میں انہوں نے بے مثال کردار ادا کیا۔ مگر اس سے یہ کہاں باورہوتاہے کہ میں انہیں پبلک انٹلکچوئل کہوں۔کوئی شخص یا پبلک کا نمائندہ ہوتا ہے یا انٹلکچوئل۔یہ پبلک انٹلکچوئل کیا ہوا۔مطلب یہ کہ آپ اسے انٹلکچوئل تو نہ سمجھیں بس عوامی دانشور کہہ لیں لاحول ولا قوۃ۔ یہ تو متضاد و متصادم بات کو یک جا کرنے کی بات ہے۔ امریکیوں کو یہ کام بہت آتا ہے۔ کسی فرانسیسی دانشور نے امریکی دانشوروں پر پھبتی کسی تھی کہ وہ ہروقت ٹی وی سے چمٹے رہتے ہیں چاہے وہ نوم چومسکی ہی کیوں نہ ہو۔ پرنٹ میڈیا نے ہماری ذہانت و بصیرت کو جس طرح عامیانہ کیا‘ وہ تو خیر الگ بات ہے۔ اس الیکٹرانک میڈیا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ الیکٹرانک میڈیا غارت گر تہذیب ہے۔ یہ تو میں بات کو بہت دور لے گیا۔ کہنا مجھے یہ ہے کہ جو شخص خود کو پبلک انٹلکچوئل کہتا ہو اس کی اوقات تو خود ہی واضح ہو جاتی ہے یہ صاحب جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس میں بس ایک آدھ یہاں دیکھ لیجیے۔اظہار الحق اسے ڈٹ کر لکھ چکے ہیں۔ میں تحقیق کا آدمی نہیںمگر کوشش کروں گا کہ اس نالائق کا کھوج لگا کر اس کا اچھی طرح پیچھا کروں۔ مگر ڈر ہے اس سے وہ مشہور ہو جائے گا۔ چند ایک فرمودات سنیں۔1۔ برطانوی فوج نے پاکستان اس لئے بنایا کہ جناح اور مسلم لیگ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں جبکہ کانگرس تو استعمار دشمن تھی۔ ملاحظہ کیا آپ نے۔مری کوشش ہے کہ میں ان باتوں کو ان کے اصل ماخذ تک جا کر دیکھوں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جناح کا جھگڑا گاندھی کے ساتھ ذاتی تھا۔یہ بھی کہتے ہیں کہ آل انڈیا کانگرس ڈیمو کریٹک تھی اور ہمہ گیر بھی اور یہ کہ مہاسبھا اور آر ایس ایس مسلم لیگ کی طرح ہندو مسلمان کی الگ الگ بات کرتی تھی۔ ہاں یہ بھی فرمایا کہ کانگرس نے جناح کو مسلم لیگ میں خود بھیجا تھا تاکہ وہ مسلم لیگ کو کانگرس کے قریب لائیں۔ اب مرا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ کانگرس کی چال ناکام ہو گئی مسلم لیگ تو قریب نہیں آئی۔ یعنی کانگرس کی قیادت بے وقوفوں کا ٹولہ تھا۔ اظہار الحق نے اس کی خوب خوب کلاس لی ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا اس وقت میرا مقصد کہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی کتاب پر تبصرہ کرنا ہے نہ اظہار الحق کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا ہے۔ میں اس شخص کی تلاش میں رہوں گا۔ ایسے سارے گدھوں سے نمٹناپاکستان کے مستقبل کے لئے ضروری ہیں۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ ہماری درسگاہوں میں کیسے کیسے زہریلے بچھو پل رہے ہیں۔ فکر نہ کریں ہمارے پاس ان کے زہریلے ڈنگ کا تریاق موجود ہے۔ اشرافیہ کی چھتری تلے ان لوگوں کو زہر پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ ہمارے ملک میں آج کل ایک نظام تعلیم کی بات ہو رہی۔ اس میں سارا زور مدرسوںکو قابو کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اصل کام یہ ہے کہ اس نظام تعلیم کو بے دھڑک بس گھومنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ دونوں کمپیوٹر سیکھ جائیںگے تو کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ مگر ہمارے مدرسے اگر شیخ الحدیث پیدا کرنے سے رک جائیں گے تو ایک سیلاب آ جائے گا۔ دوسری بات یہ سکول جو تعلیم کھلم کھلا دے رہے ہیں ان کو نکیل نہ پہنائی گئی تو ملک میں اہل دانش پیدا ہونا بند ہو جائیں گے۔ صرف ایسے عوامی دانش ور رہ جائیں گے۔ پبلک انٹلکچوئل۔خدا اس ٹولے سے قوم کو محفوظ رکھے۔