سولہ دسمبر کے واقعات اور پھر اِن پر تجزیوں اور تبصروں پر اِس قدر توانائی صرف ہوجاتی ہے کہ مابعد کے لیے کچھ کہنے سننے اور لکھنے وپڑھنے کی زیادہ گنجائش ہی نہیں بچتی۔ پاک و بھارت کے درمیان 1971ء میں ہونے والی اس جنگ کی شروعات بھارت نے 21 نومبر1971ئ، مشرقی پاکستان پر زمینی حملے سے کی جس کے 12 دن بعد، 3 دسمبر1971ء کو پاکستان نے بھی بھارت کے خلاف اعلان ِجنگ کردیا، یوں اِس جنگ کا دائرہ مشرقی اور مغربی پاکستان، دونوں طرف پھیل گیا۔ پلاننگ یہی تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے ذریعے کیا جائے گا اور بھارت کے شمال مغربی اضلاع بالخصوص گورداسیور، امر تسر اور فیروز پور کو اپنے تسلط میں لے لیا جائے گا۔اور جب جنگ بندی ہوگی تو باہمی مفاہمت اور لین دین میں اپنے مفاد کے مطابق امور طے پاجائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور مشرقی پاکستان کا دارالحکومت ڈھاکہ، 16 دسمبر1971ء میں انڈیا کے قبضے میں چلا گیا۔ جس کے بعد جنگ بندی کر کے ہتھیار ڈال دیئے گئے، اور پھر مشرقی پاکستان " بنگلہ دیش" بن گیا اور ہمارے نوے ہزار سپاہی انڈیا کی قید میں چلے گئے، ان 90 ہزار میں، نصف یعنی پنتالیس ہزار وردی پوش اور نصف سویلین تھے، جو تقریبا ً اڑھائی سال انڈیا کی قید میں رہے۔ ان شب و روز کو مختلف لوگوں کی طرف سے احاطہ تحریر میں لانے کی سعی کی گئی، جن میں ایک صدیق سالک بھی ہیں، وہ لکھتے ہیں: ہماری منزل اور راہ منزل کا علم صرف بھارتی حکام کو تھا۔ باقی سب قیاس آرائیاں تھیں۔ ہم میں سے جو خوش فہمی کے شکار تھے، ان کی نگاہیں بار بار واہگہ یا کراچی کی طرف اٹھتی تھیں۔ اور جو حقیقت پسند ی کے دعویدار تھے وہ ہر آنے والی بلا کا استقبال کرنے کو تیار رہنے کی تلقین کرتے تھے۔البتہ قنوطی سے قنوطی شخص بھی اس وقت اندازہ نہ کر سکا کہ ہمیں دو ڈھائی سال بھارت کی میزبانی کا شکار ہونا پڑے گا یا جنگی جرائم کے مقدمات کا ڈھونگ رچایا جائے گا۔ غالباً اس خوش خیالی کی وجہ، یہ عام تاثر تھا کہ بھارت اور بنگلہ دیش اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب وہ ہمیں یرغمال کے طور پر رکھ کر کیا کریں گے! جب ہمارے اندر ایسے خیالات نے کھلبلی مچارکھی تھی تو باہر مکتی باہنی والے سب کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ وہ ہر قسم کے نظم و ضبط یا حکم و تعمیل کی بندشوں سے آزاد تھے۔ وہ جس کسی کے جان و مال سے کھیلنا چاہتے کھیل جاتے، گلشن میں جس پھول پر نظر پڑتی مسل ڈالتے اور جو شاخ انہیں ٹیڑھی دکھائی دیتی کاٹ دیتے۔ پاکستانیوں میں سے ان کی نظر خاص طور پر سینئر فوجی افسروں پر تھی جو اتنا عرصہ ان کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے تھے۔ بھارتی حکام نے ان افسروں کو اگلے روز یعنی 20 دسمبر کو بذریعہ ہوائی جہاز کلکتہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی طے پایا کہ ان افسروں کے اے ڈی سی اور اردلی اس قافلے کی گردِ راہ کے طور پر ان کے ساتھ ہوں گے۔ جونیئر افسروں میں سے مکتی باہنی نے جن کو در خورِ اعتنا سمجھا، ان میں اس بندہ ء حقیرپْرتقصیر کا نام بھی تھا۔ " آزادی" کے ان جیالوں کا اصرار تھا کہ سینئر فوجی افسروں کے ساتھ تو جو ہوگا سو ہوگا، یہ ادنیٰ و کمتر قسم کے لوگ ہمارے حوالے کئے جائیں، تاکہ ہم ان کے کرتوتوں کے مطابق ان سے " انصاف" کرسکیں۔ مجھے اس امتیاز پر تشویش بھی ہوئی اور حیرت بھی۔ تشویش کی وجہ یہ تھی کہ انصاف حاصل کر تے کرتے کہیں جان ہی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں اور حیرت اس لیے کہ میں کسی ہنر میں یکتا نہ تھا کہ اس خصوصی سلوک کا مستحق ٹھہرتا،20 دسمبر کو صبح آٹھ بجے کے قریب جنرل نیازی اپنی مخصوص قیام گاہ سے نکل کر اپنے سابق ٹیک ہیڈ کوارٹرز(TAC HQ) کی طرف آئے جہاں انہیں، جو افسر اور جوان دستیاب ہوسکے، ان سے الوداعی باتیں کیں۔ گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم نے جنگ بندی کا سودا کیا ہے، عزت کا نہیں، لہٰذا اپنی عزت اور وقار کو برقرار رکھنا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے دشمن کے سامنے دستِ سوال درازنہ کرنا اور ڈھاکہ سے روانگی کے وقت جس چیز کی وہ اجازت دیں ساتھ لینا، ورنہ ادھر ہی پھینک جانا۔ چیزوں سے بلاضرورت چمٹنے کی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے اس آخری خطاب سے محروم رہا، کیونکہ میں کل کے ذوقِ تماشا سے نڈھال ابھی تک اپنی چار پائی سے بغل گیر تھا۔ خطاب کے بعد ایک صاحب نے بتایا کہ جنرل صاحب تمہارا پوچھ رہے تھے۔ زہے عزو شرف!اس آڑے وقت ان کی نظرِ کرم تپتے ہوئے صحرا میں بادل کا ٹکڑا معلوم ہوئی۔ میں فوراً ان کے بنگلے پر پہنچا وہ وردی پہنے لان میں ٹہل رہے تھے۔ ان کا ذاتی سامان یعنی بستر، سوٹ کیس اور بیگ وغیرہ باہر بر آمدے میں پڑے تھے۔ وہ خود کلکتہ روانہ ہونے کا انتظارکر رہے تھے۔ مَیں بھی ان کی چہل قدمی میں شریک ہوگیا۔ اب 16دسمبر کو گزرے ہوئے تین دن اور چار راتیں ہوچکی تھیں۔ وقت نے ان پر خوشگوار اثر چھوڑا تھا۔ اب وہ صدمے سے کافی حد تک سنبھل چکے تھے۔ ان کی گفتگو میں ٹھہراؤ اور متانت کا عنصر غالب تھا۔ بات بات پر مذاق اور لطیفہ بازی کی کیفیت جو ان کی شخصیت کا ہم پہلو تھا' ابھی تک بحال نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے دس پندرہ منٹ مجھ سے بات کی۔ باتوں باتوں میں مجھے پتہ چلا کہ میں جس کو ابرِ کرم سمجھا تھا۔ وہ محض گردو غبار کا بادل تھا۔ اس کا دامن پانی کے قطروں سے تہی اور اس کا سایہ بے معنی۔ یوں معلوم ہوا کہ وہ بھی میری طرح بقول میر تقی میر: بے کس ہوئے، بے بس ہوئے، بے کل ہوئے، بے گت ہوئے جنرل نیازی کے بنگلے سے باہر نکلا تو ساتھ والے بنگلے کے لان میں جنرل فرمان بیٹھے نظر آئے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔حال احوال پوچھا۔ پتہ چلا کہ وہ بھی کلکتہ جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ہم لان ہی میں بیٹھے تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔ گفتگو کا رْخ مکتی باہنی کے " کارناموں " اور بھارتیوں کی دانستہ غفلت کی طرف مڑگیا۔ اتنے میں بھارتی جنرل ناگرہ ادھرآنکلا۔ جنرل فرمان نے اس سے میرے بارے میں بات کی تو اس نے ہوا کے گھوڑے پر سوار جنگل ہیٹ کو سہلا تے ہوئے کہا " فرمان ہم نے ہر جنرل کو ایک سٹاف آفیسر ساتھ لے جانے کی اجازت دی ہے، تم جس ٹام،ڈک اور ہیری کو ساتھ لے جانا چاہو، لے جاؤ۔ یہ میرا "ہیڈ ایک" نہیں کہ کون جاتا ہے کون نہیں۔"یوں مجھے وی آئی پی قافلے میں شامل ہونے کی اجازت مل گئی۔ ٭٭٭٭٭