یہ فیصلہ تو بعد میں ہوتا رہے گا کہ اَسّی کی دہائی کا یہ درمیانہ سا ہندسہ ’پچاسی‘ گلاس اور گلاسی کی طرح پچاس کا اسمِ تصغیر ہے یا چوراسی کا بڑا بھائی؟اتنا سب جانتے ہیں کہ یہ مسٹر پچاسی، صدی کی دہلیز سے پندرہ ہاتھ دور کھڑا وہ بے فکر، فگر ہے جو نہ تو نائنٹی نروس کی دہشت میں مبتلا ہے، نہ صدی کی محبت میں دیوانہ وار بھاگ رہا ہے بلکہ اکاسی تا نواسی در آنے والی سی سی کی تکرار میں ’سین‘ کی سرسراہٹ کا مزہ لے رہا ہوتا ہے۔ لالہ بسمل کے بقول: اس کا جو سراپا ہے ، کب کسی نے ناپا ہے سرسراتا جوبن ہے ، سر پھری جوانی ہے مجھے تو یہ اَسّی کی دہائی اس لیے بھی بہت عزیز ہے کہ اپنے جملہ رجحانات اور زندگی بھر کی ترجیحات کا رُوٹ پرمٹ اسی دہائی میں ترتیب پایا۔ اسی نے میری زندگی بدلی، اسی نے مزاج!… اَسّی کی دہائی میں نامساعد حالات کے باوجود گاؤں کے منجمد ماحول سے نکل کر میٹرک کا امتحان مناسب نمبروں میں پاس کر کے کالج میں داخل ہو گیا۔ اپنے دیہاتی پس منظر کو بالائے طاق رکھ کے، مزاج کا پیش منظر ترتیب دیا۔ مستقبل میں کالج پروفیسر بننے کی دعا مانگی ، جس کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے تراسی میں ایف اے، پچاسی میں بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے اٹھاسی میں ایم اے اُردو، نواسی میں ایم اے فارسی میں داخلہ… اور پھر اسی نواسی میں سیالکوٹ کے ایف جی کالج میں اُردو کی لیکچرشپ کو جا لیا۔ مَیںچار نومبر1989ء تا انتیس مئی1991ئ، 571 دن اس شہر میں رہا، یہ شہر اب تک مجھ میں رہ رہا ہے۔ زندگی کی کایا کو مایا میں بدل دینے والی اِسی دہائی کی محبت میں توایک زمانے میں پوری غزل لکھ ماری تھی، آپ بھی دیکھیے: اکاسی ، بیاسی ، تراسی ، چوراسی پچاسی ، چھیاسی ، ستاسی ، اٹھاسی خوشی میں جو سب نے ہی مل بیٹھ کھانا پتیسہ ، پتیسی ، پتاسا ، پتاسی پچاسی سالہ مستنصر حسین تارڑ ہماری جاٹ برادری کا وہ ہیرو ہے کہ ادب اور میڈیا کی دنیا کے قیمتی سے قیمتی ہیرے بھی جس کی تاب نہیں لا سکتے۔ لوگ اس کی پندرہ گھٹ سو والی عمر سے جتنا چاہے مرعوب ہوں،ہم تو اسے پچاسی سال کا نوجوان ہی کہیں گے کیونکہ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ بڑھاپے کا تعلق عمر سے نہیں مزاج اور جوان سوچ سے ہوتا ہے۔ اُن کے بقول ہمیں اپنے ارد گرد 19 سال کے بوڑھے بھی نظر آ جائیں گے اور 91 سال کے نوجوان بھی۔ لمحۂ موجود میں جب اخبارات اور چینل سرکاری قسم کی سڑاند سے بھرے پڑے ہیں۔ بہت سے قلمی مزدور نازک حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے بغضِ عمران کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں۔ نوازشات کی طلب یا تحفظ میں سیاست اور ریاست کے اشاروں پہ ناچتی ادبی و صحافتی نائکہ اپنا وقار، اعتبار اور معیار کب کا کھو چکی۔ رہی سہی کسر موجودہ الیکشن میں نکل گئی کہ ہر طرح کی نا انصافی میں جب سینئر ترین قلم کاروں کے قلم سے کلمۂ حق برآمد ہونا چاہیے تھا، وہاں چاپلوسی اور کاسہ لیسی کی رال ٹپکتی نظر آئی۔ بعض کی تو قبر میں ٹانگیں ہیں لیکن اب بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آرٹ اور کلچر کی سرکاری کرسیوں کی صورتِ حال تارڑ صاحب کے بقول یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی سرکار آتی ہے تو متعدد ’دانائے روز‘ قسم کے لوگوں میں بھگدڑ سی مچ جاتی ہے۔ تاحیات قسم کی پوسٹوں کو حاصل کرنے کے لیے واہیات قسم کے لوگوں کا دنگل دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ انھیں مقتدر طبقے اور صاحب لوگوں کی دلچسپیوں، کمزوریوں، ذوق، شوق، طوق سے اتنی واقفیت ہوتی ہے کہ وہ ان کے حضور اُن کی دلچسپیوں کی نیاز چڑھانے کے لیے کبھی مری جارہے ہوتے ہیں اور کبھی مرے جا رہے ہوتے ہیں۔ تارڑ اپنے عہد کے وہ واحد دانشمند ہیں، جن کی تحریر ہر دور میں متوازن اور غیر جانبدار رہی ۔ تارڑ صاحب کا یہ کمال تو ہے ہی کہ یہ اس وقت سے لاہور میں ہیں جب لاہور ابھی کسی حد تک لاہور کے اندر ہی ہوتا تھا۔ لکشمی مینشن میں منٹو کے ہمسائے رہے بلکہ انھیں فکشن کی ’گڑھتی‘ بھی منٹو ہی نے دی۔ انھیں اس بات کا قلق ہے کہ دنیا بھر میں بڑے ادیبوں کی رہائشوں اور قیام گاہوں کو علمی، ادبی، ثقافتی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ دشمن ملک بھارت نے قرۃالعین حیدر کی آخری رہائش گاہ، جو اگرچہ جامعہ ملیہ کی ملکیت تھی، عینی آپا کی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا لیکن ہم منٹو جیسے مہان افسانہ نگار کے ہال روڈ پہ واقع گھر کی حفاظت نہ کر سکے اور ان کی بیٹیوں کوحکومتی اُشکل والے تاجر مافیا سے ہار مان کے اپنا تاریخی گھر چھوڑنا پڑا۔ تارڑ صاحب کا قیام لاہور کے دوران کئی حکمرانوں سے بھی قریبی تعلق رہا بلکہ پرویز مشرف کی بیٹی عائلہ تو ان کے بیٹے سلجوق کی کلاس فیلو بھی رہی، ان کے گھر بھی آنا جانا رہا لیکن کوئی سیاسی فائدہ نہیں لیا، کسی ادبی ڈیرے پہ قبضہ نہیں جمایا، جس کا نتیجہ یہ کہ ہے کہ قدرت نے ان کے حرف، شرف، ظرف میں برکت ڈال دی۔ وہ بلا شبہ ایک طویل عرصے سے سنجیدہ قارئینِ ادب کے دلوں میں مقیم ہیں۔ ناول، سفرنامے، ڈرامے، کالم اور ٹی وی میزبانی کے میدان سر کر لینے والے مستنصر حسین تارڑ کے تین لفظی نام کا مخفف م ح ت یعنی ’محت‘ بنتا ہے لیکن ان کی ہمت نے کبھی اسے نیاز مندی کا ’ن‘ لگا کے ’محنت‘ کا استعارہ بنا لیا اور کبھی بے نیازی کا ’ب‘ لگا کے ’محبت‘ کی علامت… ان کے حالات و واقعات پہ نظر کریں تو دوہری رحمت دکھائی دیتی ہے۔ایک طرف والد کا نام رحمت،اور دوجا قدم قدم پر اللہ کی رحمت!لوگ کہتے ہیں کہ تارڑ تو لفظ ہی ایسا مشکل ہے کہ جس سے کوئی قافیہ نہیں نکلتا، ہمارے خیال میں یہ قافیے کے آدمی ہی نہیں، یہ تو قافیے کی بجائے قیافے کے آدمی ہے۔ چلتے چلتے ان کا یہ جملہ بھی سن لیجیے جو ہمارے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے کتنا حسبِ حال ہے، فرماتے ہیں: پرانے زمانے میں کبھی فرعون ہوتا تھا، کبھی نمرود، کبھی شداد اور کبھی یزید، ہمارے دور میں یہ سب ایک ساتھ پیدا ہو گئے ہیں۔