امریکی وزیر خارجہ کے سینئر مشیر ڈیرک چولیٹ نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان سے یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنے اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ ممالک "ایک انتخاب کرنے کے قابل ہوں"۔ تاہم، انکے بقول واشنگٹن کو تشویش ہے کہ چین کے ساتھ باہمی تعلقات میں داخل ہونے والی قوموں کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ واشنگٹن میں پاکستانی اخبار کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ "ہم جس چیز پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات کس سِمت میں جا رہے ہیں، جس سے اِن تمام چیزوں کی عکاسی ہو جو ہم نے 75 سالوں میں حاصل کیے ہیں بلکہ وہ سب کچھ جو ہمیں آنے والے 75 سالوں میں حاصل کرنا ہے۔" پاکستان امریکہ باہمی تعلقات کی تاریخ دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں آنے والے کئی اتار چڑھاؤ سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات اس وقت شروع ہوئے جب پاکستان نے 1954 اور 1955 میں امریکہ کے زیر اہتمام دفاعی معاہدوں SEATO اور CENTO میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کی، تاہم 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی فوجی امداد اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر امریکہ اور برطانیہ کا پاکستان اور بھارت کے ساتھ برابری کے سلوک پر پاکستان کو سخت مایوسی ہوئی۔ جب سابق سوویت یونین نے 1979ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی بن گیا جبکہ امریکہ اس وقت سویت یونین سے ویت نام کی جنگ میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاکے بعد پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تنہا رہ گیا۔ نائن الیون کے تناظر میں، پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا شراکت دار بن گیا اور صدر جنرل مشرف، امریکی صدر بش کے نام نہاد "لنگوٹیے یار" بن گئے۔ پاکستان اب افغانستان میں امریکہ کے پیدا کردہ مسائل سے اکیلے نمٹنے کی کہانی کو دہرانا نہیں چاہتا اور افغانستان میں پائیدار امن چاہتا ہے۔ اِس سِلسلے میں امریکہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام قائم ہوسکے۔ بین الاقوامی تعلقات کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات ہمیشہ ان کے ذاتی مفادات اور منفعت کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں اگر ایک ملک کو باہمی تعلقات سے فائدہ حاصل نہیں ہورہا تو وہ کِس بنیاد پر اور کیونکر تعلقات برقرار رکھے گا۔ اِس کی مثال بھی تالی بجانے کی طرح ہے جس میں دونوں ہاتھوں کا برابر کا کردار ہوتا ہے۔ اگر ایک ہاتھ پرجوش طریقے سے حصّہ نہیں لے گا تو تالی نہیں بجے گی۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ہمیشہ سے مفادات کی بنیاد پر استوار کیے گئے اور ملکی مفادات کے گِرد ہی گھومتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دونوں ملک اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر آگے بڑھیں گے۔ پاکستان اور امریکہ کے قریبی باہمی تعلقات کو بھارت کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا اور موجودہ صورتحال میں، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قیام کے نتیجے میں اِنڈیا کے مفادات کو بھی کسی حد تک نقصان پہنچا ہے، بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور اَمریکہ کے مابین تعلقات میں گرم جوشی آئے۔ دوسری طرف سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی اب یہ کوشش ہے کہ وہ خطے کے ممالک کے ساتھ چلے خصوصی طور پر افغانستان کے معاملے میں۔ اَمریکی مشیر نے اپنے حالیہ اِنٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے پہلے ہی 30 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے اور مزید مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہے جبکہ امریکہ سیلاب زدگان کے لیے 160 ملین ڈالر جمع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کام کرے گا۔ تاہم، امریکی سفارتکار ڈیرک چولیٹ کا یہ کہنا کہ "اَمریکہ کو عالمی سطح پر چین کے بارے میں تشویش ہے۔ اور یہ کہ "جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں، جنوب مشرقی ایشیا میں، پوری دنیا میں، چین ایک ایسا کردار ادا کر رہا ہے جو بہت سے معاملات میں امریکہ کے مفادات کے مطابق نہیں ہے" پاکستان جیسے ملک کے لیے جو چین کا گہرا دوست ہے، کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔چین فیکٹر پاکستان اور اَمریکہ کے مابین قریبی تعلقات کی تعمیرِ نو میں ایک اَہم عنصر ہے جبکہ امریکہ اور چین کی باہمی مسابقت اور ٹکراؤ موجوہ عالمی سیاست کی اِیک ناقابلِ اِنکار حقیقت ہے۔ پاکستان بڑی طاقتوں کی دشمنی کا شکار نہیں بننا چاہتا جبکہ بجا طور پر پاکستان کی موجودہ صورتحال کو "عالمی جغرافیائی سیاست کے کراس ہیئرز میں پھنسا ہوا" قرار دیا جاسکتا ہے۔ اَلبتہ پاکستان کی کامیابی یہی ہے کہ اَمریکہ اور چین کے مابین براہِ راست الجھاؤ نہ ہو۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب بھی رہے ہیں مگر باہمی اِعتماد کا فقدان بھی رہا ہے۔ میرے خیال میں دونوں ملکوں کے مابین حکومتی سطح پر قریبی تعلقات رہے ہیں اور دونوں ملکوں نے اپنے محدود وقتی اور وسیع المدتی مقاصد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے ریاستی مفادات کے حصول کو یقینی بنایا ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کے عوام خصوصاً پاکستان کے عوام کی اکثریت اَمریکہ کے بارے میں کوئی اَچھی رائے نہیں رکھتے جبکہ پاکستان کی معدودے اشرافیہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر اَمریکہ کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ اِن حالات میں اَگر پائیدار اور دیرپا باہمی تعلقات کا قیام انکی ترجیح ہے تو دونوں ملکوں باالخصوص امریکی پالیسی میکرز کو چاہیئے کہ پاکستان کے حقیقی خدشات اور تحفظات کو مستقل بنیادوں پر دور کرے۔