ایک احاطے میں سات آٹھ ڈاکٹر بیٹھتے تھے۔وہیں مرحوم ڈاکٹر خالد سعید اختر بھی بیٹھتے تھے۔ بعد میں انہوں نے جی ٹی روڈ پر اپنا کلینک شفٹ کر لیا اور مریض ایک بڑی زحمت سے ہمیشہ کے لیے بچ گئے۔وہ زحمت یوں کہ اسی پرانے احاطے میں ہمارے پیارے ڈاکٹر کا بھی کمرہ تھا۔ان کا کمرہ بھی ان کی طرح نفاست کا آئینہ دار تھا۔ ایک جاننے والے کسی ڈاکٹر کے پاس ایک دعوت کا پیغام دینے گئے تو دیکھا کلینک میں بہت رش ہے۔ ڈاکٹر کے پاس پہنچنا محال تھا۔کمرہ مریضوں سے بھرا پڑا تھا۔ایک مریض کرسی سے اٹھا تو ہمارے جاننے والے اس کرسی پر براجمان ہو گئے۔اور مطمئن ہو گئے کہ جب ڈاکٹر صاحب فارغ ہوتے ہیں تو آرام سے پیغام دے دوں گا۔سامنے پڑے اخبار کی ورق گردانی کرنے لگے۔ان کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے آدمی بھی ڈاکٹر سے کسی کام کی غرض سے آئے تھے۔باقی تمام مریض ہی تھے۔یہ دونوں اصحاب انتظار کرنے لگے کہ کب ڈاکٹر فارغ ہوں تو اپنا پیغام دیں اور چلتے بنیں۔مگر ہجوم تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔اچانک ڈاکٹر اپنے کمرے سے نکلے تو ہمارے جاننے والے کے ساتھ بیٹھا ہوا آدمی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ڈاکٹر نے ان کی زبان کے نیچے تھرمامیٹر رکھا۔وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر نے اشارے سے اسے بولنے سے منع کر دیا۔وہ آدمی مریض تو تھا ہی نہیں۔سوچنے لگا میں کس مصیبت میں پھنس گیا۔اس نے سوچا کہ کم از کم تھرمامیٹر تو منہ سے نکال دوں تو اچانک کسی بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح ڈاکٹر دوبارہ کمرے سے نمودار ہوئے اور خشمگیں آنکھوں سے اسے تھرمامیٹر منہ سے نکالنے سے باز رہنے کو کہا۔ساتھ ہی گویا ہوئے کہ مریض کو چیک کرنے کا میرا اپنا طریقہ ہے۔اب ساتھ والے آدمی کے منہ میں تھرمامیٹر تھا اور بول نہیں پا رہا تھا۔ہمارے دوست نے اس سے کہا یار میں تو مریض ہوں ہی نہیں میں تو ایک پیغام دینے آیا ہوں اور یہاں جیسے پھنس ہی گیا ہوں۔تھرمامیٹر والے آدمی نے سر ہلایا اور بند ہونٹوں سے ہنسنے لگا اور ہاتھوں کے اشارے سے بتایا میں بھی مریض نہیں ہوں۔کیسا ڈاکٹر ہے بغیر پوچھے ہی تھرمامیٹر لگا دیا ہے۔ڈاکٹر ہنستے ہوئے کمرے سے نکلا اور اس کے منہ سے تھرمامیٹر نکال کر چیک کرنے لگا تو اس آدمی نے موقع غنیمت جان کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں مریض نہیں ہوں بلکہ میں تو آپ کو ایک دعوت کا پیغام دینے آیا تھا۔ڈاکٹر نے افسوس میں سر ہلایا اور ساتھ بیٹھے ہمارے جاننے والے کی زبان کے نیچے تھرمامیٹر لگا دیا۔ مگر ڈاکٹر خالد سعید مرحوم تو جیسے مریض کی داستان سننے کے عادی تھے۔ایک اک کر کے مریض اندر جاتا اور اپنی ساری کہانی بیان کرتا۔ڈاکٹر صاحب ہمہ تن گوش ہوتے۔مریض کا آدھا مرض جیسے غائب ہی ہو جاتا۔پھر تھوڑی دیر سوال و جواب کا سیشن ہوتا۔ڈاکٹر صاحب مطمئن ہو جاتے تو نسخہ لکھتے۔زیادہ تر مریض ان کی شفا بخش باتوں اور کیے گئے سوالات سے ہی مطمئن ہو جاتے اور نسخہ لکھنے یا دوا لینے کی نوبت ہی نہ آتی۔ ان کا کلینک جہلم شہر میں تھا۔منڈی بہاؤالدین کھاریاں گجرات پنڈ دادن خان دینہ سوہاوہ اور خود جہلم شہر کے مریض ان کے پاس آتے اور شفا پاتے۔شام چار پانچ بجے تک جہلم میں ہوتے اس کے بعد میرپور چلے جاتے۔وہاں بھی ان کا کلینک تھا شاید جہاں وہ رات کو مریض دیکھتے ہوں گے۔ہم ان کے پاس وقتا فوقتا جاتے اپنا مسئلہ بیان کرتے تو ہنس کر کہتے اتنی دفعہ کہہ چکا ہوں بیکری کی اشیا سے پرہیز کریں۔پھر پوچھتے صبح ناشتہ کیا لیا تھا۔جب بتاتے کہ بس دو سلائس تو فرماتے آپ کا نسخہ یہی ہے کہ ڈبل روٹی اور اس جیسی بنی ہوئی چیزوں سے پرہیز ہے۔ایک دفعہ تو حد ہو گئی واقعی لکھ دیا کہ ایک ماہ ایسا ناشتہ نہیں کرنا اور ایک ماہ سے پہلے کلینک میں نہیں آنا۔پھر ہم اس پیارے انسان کے شہر سے تبدیل ہو کر کہیں اور چلے گئے مگر ان سے رابطہ رہا۔گاہے ٹیلی فون پر اور گاہے جہلم میں اپنے دوستوں کے ذریعے۔ وہ موبائل پر بات نہیں کرتے تھے اپنے کلینک اور گھر کا لینڈ نمبر پر بات کرتے تھے۔اپنے دوستوں سے البتہ موبائل پر بات کر بھی لیتے تھے اور مشورہ بھی دے دیتے تھے۔ چند دن قبل وہاں مقیم ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب رحلت فرما گئے ہیں تو دکھ کے ساتھ یہ احساس بھی فوراً ہوا کہ وہ جو غم گسار ہستی تھی جس کے ساتھ ہر قسم کا مشورہ کیا جاتا تھا اب نہیں رہا۔پہلے ان کی ہدایات پر عمل کرنے میں کوتاہی کر جاتا تھا اب ایسا معاملہ نہیں ہے۔ پہلی دفعہ سول ہسپتال روڈ پر ان کے کلینک پر گیا تو ان کی شخصیت سے متاثر ہونے سے پہلے ان کے ظاہری حسن و جمال کا اسیر ہو گیا۔اتنا خوبصورت ڈاکٹر میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ویسے سفید رنگت آپ کے خدوخال کے بہت سارے عیب چھپا دیتی ہے لیکن ڈاکٹر کیا تھا ایک یونانی حسن کا مجسمہ تھا۔پھر اس مجسمے کے چہرے ہنسی ایسے سج رہی تھی جیسے کسی معصوم گڑیا کے ڈمپل۔لباس ایسا بے شکن اور سیاہ پتلون پر گرے رنگ کا کوٹ کم ہی کسی اتنا سجا دیکھا۔انتہائی مناسب رویہ گفتگو اتنی حوصلہ اور امید بھری کہ ملنے والا اپنا مسئلہ ہی بھول جائے۔ ہمارا ان سے دو عشروں سے تعلق تھا ہم نے جہلم کے پانچ سالہ قیام کے دوران کے بعد بھی جن سے رابطہ رکھا ڈاکٹر صاحب ان میں سے ایک تھے۔وہ ہمارے گھر کے فرد ہو گئے تھے۔سرور بارہ بنکوی نے ایسے لوگوں کے لیے ہی کہا تھا جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں ہمارا تو جہلم سے جیسے تعلق ہی ختم ہو گیا۔ جن سے عشق تھا کوئی اس شہر سے گیا کوئی اس ملک اور کوئی اْس جہان جہاں سے کسی کی کوئی خبر نہیں آتی۔پہلے ناصر چوہدری کے والد اور مرزا عبدالقیوم گئے پھر ارشد علی اور اب ڈاکٹر صاحب۔