یہ سطریں لکھ رہی ہوں تو نیا سال صرف دو دن کے وقفے پر پڑا ہے اور سال گزشتہ اپنی تمام تر ہونی کے ساتھ میرے سامنے ڈھیر ہے۔ دسمبر کے آخری دن اداسی میں لپٹے ہوئے گزرتے ہیں۔ دھند میں لپٹے ہوئے دنوں کی دو پہروں پر بھی شام کا عکس پڑتا ہے ۔ اور سرد راتوں کی شامیں تو عجلت میں آتی ہیں اور دیر تک ہمارے دلوں اور گھروں میں قیام کرتی ہیں۔سال کی آخری دنوں کی طویل راتیں لمحہ لمحہ گزرتے ہوئے ہمارے دلوں میں ایک بے نام سی اداسی کی خراشیں ڈالتی جاتی ہیں۔ بظاہر تو زندگی کے سب رنگ اپنے اپنے خانوں میں مہک رہے ہوتے ہیں مگر وہ جو اس فانی زندگی کا شعور رکھتے ہیں ان کے لیے وقت کے اس گزرنے میں اداسی اور عبرت کا کیا کیا سامان موجود ہے یہ کوئی ان سے پوچھے ، شام پڑے جن کے دلوں پر ایک ویرانی دستک دیتی ہے۔اس شام میں گزرے وقت اور گزرے دنوں میں مہکتے پیاروں کی آوازیں شامل ہوتی ہیں۔مجھے بھائی آصف محمود کی ایک سطر یاد آتی ہے کہ" غزہ ہماری آخری اداسی ہے۔۔"آہ۔۔ یہ آخری اداسی سال کے آخری دنوں میں دل سے بے طرح لپٹی ہوئی ہے ہم نے اس برس ذاتی حوالوں میں ذاتی زندگیوں میں اللہ تعالی نے کامیابیاں اور مسرتیں عنایت کی اللہ تعالی نے صحت تندرستی کی عظیم الشان اور انمول نعمت سے نوازے رکھا لیکن سچ ہے کہ غزہ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں ہونے والی وحشت ناک سفاکیت نے ہماری سوچ کا دھارا بدلا۔ سال کے آغاز میں بچوں میں اپنی مسلم شناخت کا وہ احساس نہیں تھا جو سال کی آخری سہ ماہی میں ایک خاص عالمی تناظر میں پیدا ہوا۔ میں اپنے بیٹے کو دیکھتی ہوں اس نے اپنی پسندیدہ چیزیں صرف اس لیے کھانا چھوڑ دی ہیںکہ ان پیسوں سے یہودیوں کی مدد ہوتی ہے۔چھوٹے چھوٹے بچے ایسے چاکلیٹس برگر ،پزے اور چپس کھا نے سے نفرت کرنے لگے ہیں جن پر یہودی کمپنی کا ٹھپہ ہے۔ احساس و شعور کی یہ سطح بہت بڑی کامیابی ہے اس میں یقیناً سوشل میڈیا کی پوسٹوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے محنت سے ایسی ویڈیوز بنائیں انہیں وائرل کیا اور لوگوں میں شعور بیدار کیا۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے بچوں میں غزہ کے بچوں کے لیے جو احساس ہمدردی پیدا ہوا اور عالمی طاقتوں کے خلاف جو نفرت پیدا ہوئی رب اسے سلامت رکھے۔ یہودی مصنوعات کے حوالے سے وہ اپنے ننھے دلوں میں جو عزم پیدا کر کے بیٹھے ہیں کاش ہمارے بڑے بھی اسی عزم کا اظہار کریں۔ میں نے ایک کالم لکھا تھا کہ پاکستان کی ممتاز اور بڑے صعنت کار ایک تھنک ٹینک بنائیں اور اس صورت حال میں اپنا کردار ادا کریں۔روز مرہ استعمال کی مغربی مصنوعات کا ان پاکستانیوں کو بہترین متبادل پیش کریں جو اب مغربی اور یہودی مصنوعات نہیں خریدنا چاہتے۔سال کی آخری سہ ماہی سے اب تک غزہ میں ہونے والی قتل و غارت اورنسل کشی نے تکلیف کرب اور بے بسی کے نئے باب کھولے ہیں۔عالمی طاقتیں کمسن شیرخوار فلسطینی بچوں کے کومل نرم بدنوں کو اپنی وحشت سے روندتے رہے اور ہم بے بسی سے یہ قیامت خیز منظر دیکھتے رہے۔ 57 مسلمان ملک مل کر بھی چپ کا مجسمہ بنے رہے ان کے معاشی مفادات نے ان کی روح مغربی آقاؤں کے پاس گروی رکھ دی ہے۔ دولت مند عرب ملکوں کی بے حسی کو لغت کے کسی اور لفظ سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔یہ پتھریلی بے حسی دل پر کچو کے لگاتی اور ذہنوں میں سوال اٹھاتی ہے۔آہ۔۔ہماری بے بسی۔۔! اسی برس ہم نے اپنی قومی غیرت کو بھی رسوا ہوتے ہوئے دیکھا۔ برسوں بعد امریکہ کے جیل میں قید تنہائی اور قید رسوائی کاٹتی ہوئی عافیہ صدیقی کی بہن ان سے ملیں امید تھی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کوشش کرے گی اور تو عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوئی صورت صرورت بنے گے لیکن افسوس کہ معاملات پر امید ہونے کے باوجود پاکستان نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس برس ایک پھر انسانی حقوق کا نعرہ کھوکھلا، دوغلا اور بھربھرا محسوس ہوا۔لسانیات کے اصول کے مطابق ہر برس نئے لفظ جنم لیتے ہیں۔ زبان کے ارتقا کے مراحل میں بہت سے لفظ اپنے متروک معنی چھوڑ دیتے ہیں اور نئے معنی اختیار کر لیتے ہیں یا یوں کہیئے کہ بہت ساری اصطلاحیں اپنے بے جا اور بے وجہ استعمال کی وجہ سے کلیشے بن کے رہ جاتی ہیں۔ بچوں کے حقوق اور انسانی حقوق ایسی ہی دو اصطلاحیں ہیں جو اپنے آپ پر شرمندہ ہیں۔یہ اعتراف کر لینے میں کیا حرج ہے کہ ہمارا کاروبار حیات ہماری روٹین ہمارے شیڈول تمام انگریزی مہینوں کے مطابق چلتے ہیں ۔ اسی لیے سال کے اختتام پذیر ہونے پر اور نئے سال کے آغاز پر دل میں خاص احساسات کا بیدار ہونا ایک فطری سی بات ہے۔سال کے اختتام پر ہم سبھی اپنی اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذاتی زندگیوں میں کیا چیز حاصل کی، کون سی ایسی عادات تھیں جو اس برس بھی ہم بدل نہیں سکے ۔کون سے ایسے اہداف تھے جو اس برس بھی حاصل نہیں ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ کون سی ایسی خواہشیں اور اور ایسے اہداف تھے جو اس برس پورے ہوئے ،ہم۔ سب اپنا اپنا میزان دیکھتے اور تولتے ہیں۔یاد رہے کہ سود و زیاں کا یہ حساب کرتے وقت ہمیشہ امید کے دامن کو تھامے رکھیں اور خود کو غیر ضروری الزام تراشی سے محفوظ رکھیں۔اگر کچھ اہداف حاصل ہونے سے رہ گئے ہیں اور میری طرح آپ بھی کچھ معاملات میں سست روی کا شکار ہیں تو اپنی خامیوں کو درست کرنے کا عزم ضرور رکھیں مگر خود پر بے جا الزام تراشی نہ کریں۔ وہ گفتگو جو ہم اپنے آپ سے خاموشی کے عالم میں کرتے رہتے ہیں اگر وہ منفی ہوگی تو ہمارے جسم کے پورے ماحول کو بدل دیگی اس سے نہ صرف انزائٹی پیدا ہوتی ہے بلکہ کئی طرح کے جسمانی عوارض بھی جنم لیتے ہیں۔ایک بات جو میں اکثر اپنے کالموں کا موضوع بناتی ہوں وہ ہے شکر گزاری کا احساس، آپ یقین کریں جو اللہ نے ہمیں دیا اس پر بے انتہا شکر کریں اور اس شکر کا عملی اظہار یہ ہے کہ ان نعمتوں میں سے ان لوگوں کو حصہ دیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں آپ کی نعمتوں کی حفاظت بھی ہوگی اور اس میں مزید برکت بھی ہوگی۔ ٭٭٭٭