ایک زمانہ تھا جب ڈانس پارٹیاں نہیں نائٹ پارٹیاں ہوا کرتی تھیں ۔نائٹ پارٹیوں کا مفہوم فیملی اینڈ فرینڈز گیٹ ٹو گیدر ہوتا ،یہ پارٹیاں عموماً ویک اینڈ پر ہوا کرتیں، ایسی پارٹیاں اب بھی ہوتی ہیں اور کثرت سے ہوتی ہیں، فرق یہ آ گیا ہے کہ اب لوگ دوستوں،رشتہ داروں اور مہمانوں کو گھروں کی بجائے زیادہ تر ہوٹلوں میں مدعو کرنے لگے ہیں۔ میں ایسی پارٹیوں سے بہت کچھ سیکھتا، ایسی پارٹیوں میں کم از کم ایک دو نئے چہرے ضرور ہوتے ،ان دنوں کتابیں پڑھنے کا خبط تو تھا ہی لیکن کتابوں سے زیادہ مجھے انسانی چہرے پڑھنے کا زیادہ مزہ آتا۔ انتہائی عاجزی سے بتا رہا ہوں کہ میں نے کبھی کسی چہرے کو پڑھنے میں غلطی نہیں کی، جو لوگ جو دوست آپ کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکیں،میں نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کی طرف سے نقصان تحمل سے برداشت کئے،میرے خیال میں تو ہمیں دوست بنانے ہی نقصان اٹھانے کیلئے چاہئیں۔ چہرہ شناسی پر ایک واقعہ یاد آگیا،آپ بھی سن لیں میں ایک گھر میں ڈنر پرمدعو تھا، وہاں موجود ایک انجان مہمان کی کچھ حرکتیں مجھے ناگوار گزر رہی تھیں، میں نے اس کے چہرے کو فوکس کرکے اسے بغور دیکھنا شروع کر دیا، میرے دماغ میں ایک جھماکا ہوا،اس نامعلوم آدمی کا چہرہ ایک مشہور شخصیت سے مشابہ تھا، میں نے جھٹ سوال داغ دیا،، جناب آپ کا فلاں شخصیت سے کوئی واسطہ ہے؟ اس آدمی نے انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا،، آپ کو کیسے پتہ چلا؟ جناب، وہ تو میرے والد کے بہترین دوست تھے، یہاں تک کہ روزانہ کھانا بھی ہمارے گھر ہی کھایا کرتے تھے۔۔۔۔۔یہ بتا کر وہ شخص خاموش ہوگیا،اس کا تو چہرہ ہی پتھرا گیا، میں نے بھی چپ سادھ لی ،چند ہی لمحوں کے بعد وہ آدمی خاموشی سے اس پارٹی سے واپس چلا گیا، میں نے پھر کبھی اسے نہیں دیکھا ٭٭٭٭٭ اب ایک اور سچی کہانی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، چودہ سال پہلے کا یہ واقعہ میرے دماغ سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، بہت تڑپاتی ہے مجھے یہ کہانی، بہت رلاتی ہے مجھے یہ داستان۔ ٭٭٭٭٭ ایک خوبرو، دراز قد نوجوان پچاس سال پہلے فلمی ہیرو بننے کے لئے جہلم کے کسی با عزت گھرانے سے بھاگ کر لاہور چلا آیا تھا۔نام تھا اے خان۔۔۔ سواچھ فٹ کا خوبرو جوان، گوری چٹی رنگت۔اسے اداکارسدھیر،ترانہ اور رخسانہ کے ساتھ اہم کردار میں ایک فلم بھی مل گئی جو مکمل ہوجانے کے باوجود کئی سال بعد ریلیز ہوئی اور ناکام ہو گئی۔ فلم کا نام بھی’’ کئی سال پہلے‘‘تھا۔ لکشمی چوک میں مشتاق پان شاپ کے قریب کھمبے پر اس فلم کا پوسٹر کئی سال لٹکا رہا ایک فلمی پوسٹر دیکھنا شروع کیا، فلم کا نام تھا ، کئی سال پہلے، فلم کا پروڈیوسر، ڈائریکٹر دلاور جو فلموں کے لئے ماسک بنانے کا ماہر تھا، قیام پاکستان سے دوسال پہلے بی آر چوپڑا کے یونٹ میں شامل ہو کر کلکتہ بھی گیا تھا،۔ 1960ء میں ہم مزنگ سے اچھرہ شفٹ ہوئے تو اخبار فروش یونین کے بانی مولوی حبیب اللہ نے میرے والد کے کہنے پر اسی گلی میں مکان بنا لیا ، پھر مولوی صاحب کے تین چار اور رشتہ دار بھی اسی گلی میں آگئے، مولوی صاحب کا بڑا بیٹا اختر اللہ اسے سلامت رکھے بہت مزے کا نوجوان تھا، اس سے روزانہ کوئی نہ کوئی کہانی سننے کو ملتی، پتہ چلا کہ اے خان نامی ایک فلم کا ایکٹر بھی اس کا دوست ہے اور اختر ہی اسے کہیں نہ کہیں رہنے کے لئے کمرہ یا مکان لے کر دیتا ہے، اختر خان کے بارے میں بھی ہمیں بتایا کرتا ، کئی سالوں کی بھوک اور جدوجہد کے بعد اسے پنجابی فلموں میں چھوٹے موٹے رول ملنے لگے جیسے ولن کا چمچہ یا بدمعاش، حسن عسکری نے اسے پہلی بار وحشی جٹ میں نمایاں کردار دیا ،وہ اس کامیاب ترین فلم میں سلطان راہی کا وفادار دوست بنا تھا جو قصاب ہوتا ہے۔ انہی دنوں پتہ چلا کہ خان کی ایک اہم فلمی شخصیت کی کزن سے شادی ہو گئی ہے،اس بے ترتیب شادی کے عوض خان کو نازلی کے ساتھ ایک پنجابی فلم کا ہیرو بھی بنایا گیا مگر وہ فلم بری طرح پٹ گئی تھی؛ اختر نے خان کو اپنے گھر سے اگلا مکان کرائے پر لے دیا ،خان صبح دس گیارہ بجے رکشے پر اسٹوڈیو جاتے ہوئے نظر آتا، یا کبھی رات گئے واپسی پر،پنجابی فلموں میں کردار چھوٹے چھوٹے ہی سہی لیکن وہ مصروف اور مشہورہو گیا تھا، پہلے اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی پھر بڑی منتوں کے بعد بیٹا،بیوی کے مرجانے کے بعد خان دن چڑھے بیکری تک آتے جاتے نظر آنے لگا، ایک دن عجب تماشہ ہوا، خان اچانک ہاتھ جوڑے، منتیں کرتے اور روتے ہوئے ہمارے گھر کے صحن میں داخل ہوا، اس سے پہلے وہ کبھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا ، باہر گلی میں شور تھا، وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ مالک مکان گھرخالی کرانے آ گیا ہے۔ پچھلے تین ماہ کاکرایہ مانگ رہا ہے، میں اس کی مدد کروں اور اسے کچھ دنوں کی مہلت دلا دوں، ،میں نے باہر نکل کر مالک مکان سے بات کی ،اس کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ کا کرایہ معاف کرتا ہے، یہ آج ہی مکان خالی کر دے۔ میں نے تھوڑی سی مہلت کے لئے کہا تو مالک مکان بولا، تو پھر آپ کرایہ ادا کر دیں۔ میں نے ایک ماہ کا کرایہ ادا کرکے اسے دو ہفتوں کی مہلت دلا دی، مگر خان دو ہفتوں سے پہلے ہی مکان خالی کر گیا۔ کئی دنوں بعد اس کی پندرہ سولہ سال کی بیٹی اور بارہ سال بیٹا میرے پاس آئے اور انکشاف کیا کہ ان کا باپ انہیں کسی دوسرے محلے میں لے گیا تھا، پہلے دن انہوں نے بازار سے منگوا کرکھانا ایک ساتھ کھایا، باپ اسٹوڈیو چلا گیا، پھر واپس ہی نہ آیا، بچوں کو کھانا نئے گھر کی مالک خاتون کھلا رہی تھی، ہفتہ سے زیادہ دن گزر گئے تھے، بچوں نے تینوں اسٹوڈیوز کے کئی چکر کاٹے ، الیکٹرانک میڈیا نے بھی اسکی گمشدگی کی رپورٹس چلائیں ، سب بے سود ، بچوں کو ماموں ساتھ لے گیا وہ فلمی اسٹوڈیوز کے سامنے سید پور نامی بستی میں ایک کمرے کے گھر میں بیوی اور کئی بچوںسمیت رہ رہا تھا، خان کے دونوں بچے شدید سردی میں گھر کے صحن میں سوتے تھے، کئی ہفتے گزر گئے خان کو لا پتہ ہوئے، ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ وہ ملتان میں ہے، ایک اسٹیج ڈرامے میں کام کر رہا ہے، اور رات کو وہیں سوجاتا ہے، اس کے دونوں بچے اسے لینے گئے، میں نے ڈرامے کے پروڈیوسر کے موبائل پر خود بھی خان سے بات کی، وہ واپس آنے کو تیار ہوا‘ نہ بچوں کواپنے پاس رکھنے پر راضی۔ خان نے مجھے بتایا کہ وہ اس لئے بچوں کو لاوارث چھوڑ گیا کہ اس کی بیٹی نے اس سے کہا تھا، آپ تو ہمیں دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے، مجھے فلموں میں کام کرنے کی اجازت دیدیں،وہ بیٹی کے اس مکالمے سے ڈر گیا تھا، اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ اجازت دے نہ دے جوان بیٹی اب بھوک نہیں کاٹے گی۔۔ باپ سے ملتان میں ناکام ملاقات کے بعد دونوںبچے اپنے ماموں کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے ، خان کی صبح کی طرح اجلی بیٹی نے مجھے علیحدگی میں لے جا کر کہا ،،،آپ کا کوئی جاننے والا ہے،جو مجھے گھر میں کام کرنے کے لیے رکھ لے، میں اپنے بھائی کو پڑھانا چاہتی ہوں۔ میری آنکھیں یہ بات سن کر زمین میں گڑگئیں، دماغ سن ہو گیا۔ سال ڈیڑھ سال بعد ملتان سے جمشید رضوانی نے فون کرکے بتایا کہ جس ایکٹرکو آپ ایک بار ڈھونڈھ رہے تھے وہ مر گیا ہے ، یہاں کسی کو پتہ نہیںلاش کہاں پہنچانی ہے۔آئیں مل کر دعا مانگیں، وہ بچے اللہ کی امان اور محفوظ ہاتھوں میں ہوں۔