افسوس صد افسوس داستان کہنا سیکھا نہ کہانی لکھنا آئی‘ اگر اس فن میں طاق ہوتا تو پہلے پہل ’’اک بہادر آدمی‘‘ کی داستان سناتا۔ قبیلوں‘ قوموں کے کروڑوں افراد کی ہزاروں برس کی زندگی اور کوہ در کوہ پھیلی سرزمینوں میں کوئی ایک خوش بخت نکل کے آتا ہے جسے اس کی قوم بے ساختہ ’’خاص لقب یا صفت‘‘ سے منسوب کرتی ہے جو سینکڑوں برس تک اسی ایک شخصیت کے لئے مخصوص ہو کے رہ جاتی ہے‘ ایسے چنیدہ اور خوش قسمت لوگوں میں ایک نام ‘‘جاوید ہاشمی‘‘ کا ہے‘ جسے اٹھتی جوانی اور ڈھلتی عمر کے دونوں ادوار میں اعلیٰ القاب سے ملقب کیا گیا‘ یہ انگریزوں کے دیے خطاب اور حکومتوں کے بخشے تمغوں سے کہیں زیادہ عزت افزا‘ معروف اور دیرپا اعزاز ہیں‘ عین عالم شباب میں ’’پنجاب یونیورسٹی‘‘ کے طلباء نے اسے اپنا لیڈر منتخب کرتے وقت ’’اک بہادر آدمی‘‘ کہہ کر پکارا‘ یہ پکار نصف صدی سے اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے‘ اک بہادر آدمی چار دہائیوں کے بعد کراچی کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسہ عام میں نمودار ہوا تو سامنے لاکھوں کا ہجوم بیک آواز ’’باغی باغی کے نعروں سے گونج اٹھا‘ اک بہادر آدمی جاوید ہاشمی اب باغی بھی کہلایا جانے لگا۔ بہادر آدمی تو ہزاروں ہو سکتے ہیں لیکن The Brave Manبس وہی ایک رہ گیا۔پچیس کروڑ کے ملک کا کوئی کونا‘ علاقہ ‘ بستی ایسی نہیں جو ان القاب یافتہ آدمی کو جانتی نہ ہو اگرچہ اسے سامنے پا کر شاید پہچان نہ سکے‘ ویسے یہ دونوں ’’خطاب اس کی شخصیت کا احاطہ کرتے بلکہ اس کے ساتھ جچتے بھی ہیں (؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا) دیدہ ور کوئی مانے نہ مانے لیکن باغی اور بہادر ہر کوئی مانتا ہے ’’بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں‘‘ قدیم عہد کے بنو ہاشم کی بعض خوبیاں اس کی شخصیت میں اب بھی نمایاں ہیں۔ اس میں کچھ تعجب نہیں کہ 75سالہ جاوید ہاشمی ظلم‘ ناانصافی ‘ آئین شکنی کو برداشت نہیں کر سکتا‘ ظلم اگرچہ اس کے دشمن یا حریف کے خلاف ہی کیوں نہ ہو‘ ظالم کو للکارتے وقت اس کے اندر جوانی کا جوش ابل پڑتا ہے‘ یہ آدمی نمایاں طور پر دلچسپ اور منفرد شخصیت کے ساتھ زندہ ہے‘ جنگ جو فطرت کا یہ سیاستدان وقت پڑنے پر خم ٹھونک کے میدان میں اترتا ہے تو سود و زیاں اور بیش و کم کی پرواہ کئے بغیر‘ مقابلے کے میدان میں خواہ جانی دشمن ہو یا حریف للکارتے ہوئے بے تیغ لڑ جانے کے عزم اور حوصلے کے ساتھ اترنا اس کی فطرت ہے۔ ’’بہادر جنگ جو مگر عدم تشدد کے ساتھ‘‘ پہل کاری‘ رعب‘ دبدبہ‘ شیر کی سی دھاڑ اس کے اصلی ہتھیار ہیں‘ ہم نے بارہا اسے ہتھیار بند مخالف کے سامنے بغیر ہتھیار میدان میں اترتے اور فتح یاب واپس آتے دیکھا ہے ۔اک بہادر آدمی سیاست میں ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہے۔ ایک متوسط اور غیر معروف خاندان میں پیدا ہونے والے جاوید ہاشمی نے پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے قدیم اجارہ دار گروہوں کا سامنا کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لئے جگہ بنائی بلکہ انہیں ایسی شکست اور ہزیمت کا سامنا ہوا کہ تنہا نوجوان کے مقابلے کے لئے ایک صدی کی حریفانہ کشاکش کو ترک کر کے ایک ہونا پڑا‘ یوں مقامی یا علاقائی جو کچھ بھی آپ اس کو نام دے سکیں معروف گیلانی اور قریشی گروپوں کی اجارہ داری کو ختم کر کے رکھ دیا‘ صدیوں کے مذکورہ اجارہ دار عام سیاستدانوں کی صف میں کھڑے ہیں۔75سالہ ہمارا دوست سال خوردگی اور طویل علالت‘ جسمانی کمزوری کے باوجود ظلم‘ جبر اور سیاسی پابندیوں کے ماحول ناانصافی کی فضا میں خاموش تماشائی نہیں بن سکا‘ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی باغی فطرت اسے چین سے رہنے نہیں دیتی‘ جسمانی ناتوانی کے دور میں بھی اس کی توانا للکار نے بڑا ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ جب وہ بستر مرگ پر تھے تو انہوں نے فرمایا میں شہادت کی تمنا دل میں لئے جاتا ہوں۔ میں نے ایک سو سے زیادہ جنگیں لڑیں‘ جسم کا کوئی حصہ نہیں بچا جہاں زخم کا نشان نہ ہو لیکن میدان جنگ میں شہادت کی آرزو پوری نہ ہو سکی‘ تاریخ دان لکھتے ہیں ان کے جسم پر زخموں کے سینکڑوں نشان تھے حضرت نے زخم دشمن کی تلواروں سے کھائے اور دشمنوں کو اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتارا۔ انہی کے رشتہ دار قبیلے میں چودہ سو برس بعد پیدا ہونے والے اس بچے کے جسم پر تشدد کے سینکڑوں نشانات ہیں اس کے جسم کی پور پور نے ظلم سہا’ تشدد برداشت کیا لیکن اس کے جسم سے کہیں زیادہ زخم اس کی روح پر ثبت ہیں اس لئے کہ زخم دشمن کی تلواروں کے نہیں اپنے ہی ملک کے ظالم نظام اور حکمرانوں کے دیے ہیں اس بہادر کی خوبی یہ ہے کہ ہتھیار کا مقابلہ للکار اور ظلم کا صبر سے کرتا اور ثابت قدم رہتا ہے۔ اس کے صبر‘ ثابت قدمی اور قوت برداشت نے ہر حکمران کو شکست دی اس نے لڑکپن میں ایوب کی آمریت کو للکارا‘ ابتدائے جوانی بلکہ عین عالم شباب میں ۔شباب کے بارے احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں ؎ حاصل عمر ہے شباب مگر اک یہی وقت ہے نوانے کا مگر اس نے شباب کو گنوایا نہیں‘ عدیم ہاشمی کے مطابق ؎ مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے وہ بلائوں سے لڑتا رہا مگر مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے‘ ملتان میں اس کے گھر‘ غلام احمد بلور‘ شیخ رشید اسے مشورہ دیتے‘ سمجھاتے کہ کچھ دن کے لئے خاموش ہو جائو‘ اِدھر اُدھر گھومو پھرو ممکن ہو تو چند دن کے لئے بیرون ملک دوستوں سے ملو‘ ملاقاتیں کرو‘ ہم دیکھتے یں کہ تمہاری جسارتوں کے خلاف حاکم وقت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے مزاج برہم ہیں یہ صلاح کار کسی کا پیغام لے کر نہیں آئے تھے‘ یہ اس کے پرانے دوست اور ہمدرد تھے لیکن اس نے مان کے نہیں دیا اور اپنی زندگی کی طویل ترین جیل کاٹی‘ یہ صرف جیل اور قیدو بند کی اذیت ہی نہیں تھی‘ نامعلوم افراد اسے جیل سے نکال لے جاتے‘ انتہائے جسمانی تشدد کرتے نیم جاں کر کے چھوڑتے اور اگلے دن پھر وہی مشقِ ستم لیکن اس نے اپنی روش کو بدل کے نہیں دیا۔ بھٹو کا عہد حکومت بھی اس سے کم بے رحم یا سفاک نہیں تھا۔ اس نے انتہائی سرد موسم کی صبحوں کو اسے برف کی سِلوں پر لٹائے رکھا کسی بھی بہادر سے بہادر اور توانا شخص کے لئے بھی یہ اذیت ناقابل برداشت ہے‘ وہ اسے سہہ نہیں سکتا ،سہہ جائے تو جان سلامت نہیں رہتی مگر وہ سب کچھ سہہ گیا ظلم کے سامنے جھکا نہ گڑ گڑایا‘ یہ دونوں ادوار یعنی ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف کی حکمرانی کا زمانہ‘ پاکستان کے انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں کے خلاف بدترین زمانے تھے‘ دونوں ادوار میں اس نے مزاحمت کی مثال قائم کرتے ہوئے پوری کی خاموشی کا کفارہ ادا کیا‘ اس کے جسمانی عوارض اور طویل بیماری دراصل پرویز مشرف کی دین ہے‘ وہ سب کچھ برداشت کر جانے اور کہولت کی عمر پا لینے کے باوجود آج بھی سلامت اور زندہ ہے‘ نئی حالات‘ نئے جبر اور برے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار نظر آتا ہے‘ اس پر ظلم کرنے والے خدا کی زمین پر خدائی کے دعویٰ دار اپنے عہد کے فرعون مگر کہاں ہیں؟؟ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ جسم کی ناتوانی کے سبب اس کا عہد تمام ہوا مگر پیش گوئی کرتا ہوں کہ امسال 8فروری کے بعد ع: سنا ہے میں یہ قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا