سقوط مشرقی پاکستان کے اہم ترین کردار چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان 16 دسمبر 1971ء کے بعد بھی اسی زعم میں تھے کہ وہ باقی ماندہ پاکستان پر اپنا اقتدار قائم رکھ سکتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک مایوسی کی فضا تھی۔ ایسے میں ایک خبر صرف ہتھیار ڈالنے کے 24 گھنٹے کے اندر پھیلی کہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے اہم قانونی ماہرین کا اجلاس بلایا ہے اور وہ نیا دستور نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس عالم شکست میں بھی اقتدار میں مزید رہنے کی منصوبہ بندی کے بارے میں تمام تر تفصیل بریگیڈیئر فرخ بخت علی نے تحریر کی ہے، جسے پڑھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت سے اقتدار پر قابض لوگوں کا اپنی قوت پر کس قدر اندھا بھروسہ ہوتا ہے اور وہ عوام کے جذبات سے مکمل طور پر ناآشنا ہوتے ہیں۔ بریگیڈیئر صاحب کا انتقال فروری 2021ء کو بانوے سال کی عمر میں کینیڈا میں ہوا۔ بریگیڈیئر فرخ بخت علی کا مکمل تذکرہ پاکستان کی عسکری تاریخ کے ماہر حامد حسین صاحب کی کتب اور مضامین میں جا بجا ملتا ہے۔ بریگیڈیئر فرخ بخت 1929ء میں دلّی میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا صفدر جنگ خان امرتسر کے کوتوالِ شہر تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو فرخ بخت کے والد بخت یاور کو ان کی ماں نے انتہائی کٹھانیوں میں پالا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ انڈین پولیس سروس سے وابستہ ہو گئے۔ فرخ بخت بھی باپ کے نقش قدم پر گورنمنٹ کالج لاہور جا پہنچے۔ کالج کے زمانے میں انہوں نے مسلم لیگ کے سٹوڈنٹس ونگ میں بھر پور شمولیت اختیار کر لی۔ پاکستان بننے کے بعد وہ سیاسی میدان میں جانا چاہتے تھے، لیکن باپ کے کہنے پر پاکستان ملٹری اکیڈیمی کے پہلے کورس میں شامل ہو گئے جہاں انہیں پاسنگ آئوٹ پر نورمن (Norman) گولڈ میڈل ملا۔ انہیں نوکری کے آغاز میں سفارش کا سامنا کرنا پڑا جب وہ میرٹ کے اعتبار سے آرمڈ کور میں جانے کے اہل تھے مگر ان کی جگہ فضل حق (سابقہ گورنر سرحد) کو پس پردہ سفارش کی وجہ سے بھیج دیا گیا۔ اپنی محنت سے آگے بڑھتے ہوئے وہ مئی 1971ء میں بریگیڈیئر کے عہدے تک جا پہنچے اور پاکستان ملٹری اکیڈیمی کے ڈپٹی کمانڈنٹ لگا دیئے گئے۔ جنگ کا آغاز ہوا تو انہیں چھٹی آرمرڈ ڈویژن آرٹلری کی کمان دے دی گئی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد پورے ملک میں پژمردگی چھائی ہوئی تھی۔ بریگیڈیئر فرخ بخت نے ان دنوں کے حالات کو "Conduct Unbecoming" میں تحریر کیا ہے۔ ان کے بقول وہ یہ تصور کر رہے تھے کہ جنرل یحییٰ اور اس کے ساتھی جرنیل فوراً ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیں گے۔ انہوں نے خود بھی اپنا استعفیٰ 16 دسمبر کو تحریر کر دیا تھا کہ 17 دسمبر کو انہیں یحییٰ خان کی ہوس اقتدار کی خبر ملی کہ وہ ملک میں نیا آئین نافذ کرنے جا رہا ہے۔ وہ فوراً میجر جنرل اسکندر کریم کے پاس گئے جو ایک بنگالی آفیسر تھا اور ’’بچو کریم‘‘ کے نام سے مشہور تھا، اور اسے کہا کہ نوجوان افسران سخت مشتعل ہیں، ان کے جذبات اوپر پہنچائو۔ ’’بچو کریم‘‘ ایک بنگالی ہونے کی وجہ سے اس وقت بہت خوفزدہ تھا اور ایسا نہ کر سکا۔ بریگیڈیئر فرخ نے اسے اپنے کارواں میں بند کیا اور کمان سنبھال لی۔ آرمی ریزرو (نارتھ) کا سربراہ میجر جنرل بشیر، اسی بچو کریم سے ملنے آیا، تو اس نے اسے حالات سے آگاہ کیا۔ میجر جنرل بشیر نے فوراً غصے میں فرخ بخت سے کہا تم زیر حراست ہو، میری جیپ میں بیٹھو میں تمہیں ہیڈ کوارٹر لے کر جاتا ہوں۔ اتنے میں چند نوجوان آفیسر سامنے آ گئے اور جنرل بشیر نے ارادہ ترک کر دیا۔ اسی دوران میجر جنرل شمیم اور بریگیڈیئر اقبال مہدی شاہ بھی ان نوجوانوں کے ساتھ مل گئے۔ انہوں نے حالات کی آگاہی کے لئے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر آنے کی دعوت دی۔ اس نے انکار کیا تو کرنل آغا جاوید اقبال اور کرنل علیم آفریدی کو اس کے پاس بھیجا۔ یہ دونوں اس کے پاس پہنچے تو وہ بہت شکستہ دل ہو رہا تھا، کہنے لگا میں نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نے فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان کو دفتر میں بلا لیا اور پھر دونوں مل کر جنرل یحییٰ اور جنرل حمید سے ملے اور انہیں فوج کے نوجوان آفیسروں کے درمیان پھیلی بد دلی کے بارے میں بتایا۔ لیکن ان دونوں نے اقتدار کو طول دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں میجر جنرل سے بات کرنے کے لئے کال کی تو اسے کہا گیا کہ کمان بریگیڈیئر فرخ کے پاس ہے، اس سے بات کرو تو اس نے کال کاٹ دی۔ کوارٹر ماسٹر جنرل مٹھا نے ایس ایس جی کے کمانڈر بریگیڈیئر غلام محمد سے کہا کہ کچھ کمانڈو بھیجو تاکہ ڈویژن ہیڈ کوارٹر کا کنٹرول واپس لیا جائے۔ اس نے انکار کر دیا اور اس کی کوششوں کے بارے میں جنرل گل حسن کو جا کر بتا دیا۔ صوبوں کے گورنر جو کہ جرنیل تھے، ان سے یحییٰ خان نے بات کرنا چاہی، لیکن سندھ میں رحمان گل، سرحد میں کے ایم اظہر اور بلوچستان میں ریاض حسین نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان نے یحییٰ خان سے بات کی اور اسے بتایا کہ گورنر ہائوس کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم کھڑا ہے اور نعرے لگا رہا ہے۔ یحییٰ نے پوچھا ’’وہ کیا مانگتے ہیں، جنرل عتیق نے کہا، ’’تمہارا سر مانگتے ہیں‘‘۔ یحییٰ نے کہا مجھے سمجھ نہیں آ رہا، تو اس نے فقرے کو دہرایا۔ تو یحییٰ نے کہا ’’تم نے ان لوگوں کو میرے خلاف کیا ہے‘‘۔ جنرل یحییٰ خان نے جنرل مٹھا کو بریگیڈیئر علی کے پاس بھیجا کہ اسے کہو کہ اگر جنرل حمید کو میری جگہ بٹھا دیں تو راضی ہو جائو گے۔ نوجوان آفسران جنرل حمید کو بھی برابر کا ذمہ دار سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے انکار کر دیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی بریگیڈیئر غلام جیلانی (نواز شریف فیم) اور ڈی جی ایم آئی بریگیڈیئر اقبال خان (سابقہ گورنر پنجاب) کو ڈویژن ہیڈ کوارٹر بھیجا گیا کہ وہ بریگیڈیئر فرخ اور بریگیڈیئر اقبال مہدی شاہ کو راضی کریں۔ لیکن حالات اور بدلے ہوئے تیور دیکھ کر ایجنسیوں کے دونوں سربراہ جنرل گل حسن کے پاس چلے گئے اور اسے حالات سے آگاہ کر دیا۔ بدترین شکست اور آفسران میں غصے کے باوجود جنرل حمید نے آڈیٹوریم میں تمام آفیسران سے خطاب کرنے کی ٹھانی تاکہ انہیں بتا سکے کہ اس وقت فوج کا اقتدار میں رہنا ملک کے لئے کس قدر ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ جو افسران نے سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل گل حسن بریگیڈیئر ضیاء الحق (سابقہ صدر) کو کئی میل دُور سے بلا کر ڈویژن ہیڈ کوارٹر بھیجا تاکہ وہ اسے حالات سے مسلسل باخبر رکھے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں ذوالفقار علی بھٹو جو اس بچے کھچے پاکستان کا واحد مقبول لیڈر رہ گیا تھا، اس کو بلا کر اقتدار اس کے حوالے کیا گیا۔ اس کے چند گھنٹوں بعد ہی ملک پُر سکون ہو گیا اور عوامی غم و غصہ جاتا رہا، لوگ مستقبل کی طرف نظریں لگائے پُراُمید ہو گئے۔ چند دن پہلے کی شکست کے زخم مندمل ہونا شروع ہو گئے۔ اس وقت کی فوج کی اکثریت کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک جب بھی کسی بحران کا شکار ہوتا ہے تو اسے انتظامیہ، قوت، طاقت یا فوج کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایسے میں اسے ایک مقبول اور پاپولر رہنما اور قائد کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم کو حوصلہ دیتا ہے، اس کی ڈھارس بندھاتا اور اُمیدیں جگاتا ہے۔ جس کی محبت کی خاطر قوم دُکھ سُکھ برداشت کر لیتی ہے۔ روکھی سُوکھی کھا کر اس لئے گزارا کرتی ہے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا محبوب رہنما حالات بدل دے گا۔ آج پاکستان کو بھی ویسے ہی ایک مقبول رہنما کی ضرورت ہے جو موجودہ بدترین حالات میں لوگوں میں اُمید بھر دے۔ یہ مقبول رہنما صرف الیکشنوں سے ہی برسراقتدار آ سکتا ہے۔ اس وقت اگر طاقت سے اقتدار کو چند دن بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی تو یہ بہت خطرناک ہو گا۔ آج عوامی غم و غصہ 1971ء سے کہیں زیادہ ہے، اس لئے آج الیکشنوں کی ضرورت بھی اس سے کہیں زیادہ ہے۔