جب سے کراچی میں ایک بڑی نجی سوسائٹی کی پہلی اینٹ لگائی گئی اس وقت سے آج تک جب یہ خوبصورت شہر کا روپ دھار چکا ہے۔ کشادہ سڑکیں ترتیب اور ضابطے کے تحت بنائی گئی عمارتیں ، مکانات ، فلیٹس ،شاپنگ سینٹرز اور دفاتر کے لئے مخصوص سہولتوں سے مزین فلورز پلان کے تحت مختلف فیز اور سیکٹرز کی تقسیم ، اس کے مکینوں کی تفریح طبع کے لئے پارکس، رنگ برنگے فاؤنٹین اورنوجوانوں کے کھیل کود کے لیے جدید طرز کے مواقع ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس شہر کے لوگوں کے لئے رہائش کا ایک نیا اور ترقی یافتہ دنیا کے مماثل ایک زبردست ماحول متعارف کرایاگیا۔ اس جگمگاتی آبادی نے بہت جلد 25 کلومیٹر دور بڑی تیزی اور بے تربیتی سے پھیلتے کراچی کے رہائشیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ اگر وہ چاہیں تو کراچی حیدر آباد موٹروے کے ساتھ ابھرتی اس رہائشی منصوبے میں رہنے کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ جب میں لاہور اور راولپنڈی میں اس طرز کے رہائشی منصوبے دیکھتاتو سوچتاکہ کاش اس طرح کا منصوبہ کراچی میں بھی ہو جہاں کی تعمیرات قرینے سلیقے اور ضابطے کے مطابق ہوں ۔ جہاں صفائی اور سکیورٹی کا ایک مربوط نظام موجود ہو، جہاں پہلے دن اس بات کا بھی تعین کرلیا جائے کہ یہاں اتنے افراد کے رہنے کی گنجائش ہو گی ان کے لئے تمام اہم ضروریات اور سہولیات کی فراہمی لے لئے کتنے وقفے سے کیا کیا اقدامات کرنے ہوں گے ۔میں نے کئی بار یہ تجویز دی کہ حکومت کم لاگت میں ایسے منصوبے بنائے جو نسبتاً کم آمدنی کے لوگوں کے لئے بھی مشکل رہائشی مسئلہ حل کرسکیں ۔کئی سال پہلے مجھے متعدد بار لاڑکانہ جانے کا اتفاق ہوا میں جب بھی بھٹو صاحب کے شہر گیا موہنجودوڑو کا چکر ضرور لگا میں نے ان کھنڈرات کی تاریخ پڑھی۔ تو حیران رہ گیا یہاں کی تہذیب و تمدن کے متعلق اوراق پلٹے تو عقل دنگ رہ گئی۔ اس وقت میری بڑی خواہش تھی کہ موہنجودوڑو کہ قریب ایک مثالی ٹاؤن بننا چاہیئے دنیا میں قومیں بنتی ہیں ، مٹتی ہیں آثار قدیمہ بن جاتی ہیں جن کے قریب حکومتوں نے خوبصورت ٹاؤن آباد کیے مٹی کے ڈھیر کے پاس آکر جگمگ جگمگ کرتے قمقموں کی پھیلتی روشنی ایک نئی تازگی فراہم کرتی ہے۔ میں نے ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو سے اس تجویز کا فیڈ بیک چاہا تو دختر مشرق نے مسکراتے ہوئے کہا جو زندہ شہر ہمارے پاس موجود ہیں پہلے ان کی ابتر صورتحال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے وسائل محدود ہیں میں نے جب ان سے حیدرآباد کمی زبوں حالی اور اس کے قریب ایک نئے جدید ٹاؤن کی کی تعمیر کی تجویز رکھی تو محترمہ کا کہنا تھا کہ شہروں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ گزشتہ ربع صدی میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف منتقلی کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ جس کے سبب کراچی جیسے شہر میں آبادی کے ساتھ ساتھ مسائل کا جنگل اگ آیا ہے ۔کسی کو معلوم ہے کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں مکین آرہے ہیں ۔ ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ جو کام ایک شخص کرسکتا ہے وہ کام دنیا کے باقی اربوں لوگ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ اگر یہ کام نہ ممکن ہوتا تو پہلا انسان بھی نہ کر پاتا جب ایک شخص نے یہ کارنامہ سرانجام دیدیا تو ثابت ہوگیا کہ انسانی سطح پر یہ نا ممکن نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگوں کے لئے آسان اور دوسروں کے لیے مشکل ہوتے ہیں لیکن نا ممکن کسی کے لیے نہیں ہوتے اور دوئم کامیابی کا ایک ذائقہ ایک ٹیسٹ ہوتا ہے انسان اگر ایک بار یہ ذائقہ چکھ لے پھر یہ اپنی زندگی میں ناکامیوں کا زہر نہیں گھلنے دیتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب الطاف حسین جب اپنی شہرت کے بام عروج پر تھے ایک بار جب شہر حیدر آباد میں شہری یونیورسٹی کی بات ہوئی تو اس نے عرض کی کہ آپ کو کسی سے بھی اپیل کرنے کی ضرورت نہیں آپ ایک دن صبح کراچی کے کسی چوراہیپر کھڑے ہو کر اپنے حمایتیوں سے چندے کی اپیل کریں مجھے یقین ہے کہ شام ہونے سے قبل اس یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے آپ کے پاس فنڈ جمع ہو جائے گا ۔ میں بہت پہلے ممتاز صنعت کار اور کراچی یونیورسٹی میں کمسٹری ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کے روح رواں جناب لطیف ابراہیم جمال کی یہ تجویز بھی جناب الطاف حسین کے سامنے رکھی تھی کہ کراچی میں تمام ٹاؤنز اور حیدرآباد میں پہلی جماعت سے 12 جماعت تک بڑے ماڈل اسکولز اور 200 بستروں پر مشتمل ہسپتالوں کی تعمیر کو حکومت کے تعاون سے سیلف ہیلپ کی بنیاد پر ایسے مثالی ادارے بنائے جا سکتے ہیں جو علاقے اور آبادیوں کے مخیر لوگوں کے تعاون ان کی اجتماعی کوششوں سے بغیر نفع نقصان کی بنیاد پر چلائے جا سکتے ہیں ۔ ایسے منصوبوں میں زمین کی فراہمی سے لے کر آپریشنل مراحل تک حکومت ممکنہ تعاون فراہم کرے تو صحت اور تعلیم کے سیکٹر میںعام شہری کو نہ صرف غیر معمولی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے بلکہ عام لوگوں کے بچے پورے اعتماد اور فخر سے بہترین ماحول پر مشتمل ان تعلیمی اداروں میں جا سکیں گے ۔ جناب الطاف حسین نے اس تجویز کا قابل عمل بلیو پرنٹ بنانے اور اسے اس وقت کے گورنر ڈاکٹرعشرت العباد سے بات کرنے کے لیے کہا ۔ میں نے اس تجویز کا پورا بلیو پرنٹ ڈاکٹر عشرت العباد کو پیش کیا ۔یہ جنرل مشرف کا دور تھا اور جنرل مشرف کراچی کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے پر آمادہ دکھائی دے رہے تھے ۔ میں نے 2019 میں جناب عمران خان کے سامنے بھی عام آدمی کے لئے سستی رہائش کے حوالے سے ایک قابل عمل فزبیلٹی کے خدوخال پیش کئے تھے ۔ عمران خان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی جماعت میں نجیب ہارون ، آفتاب صدیقی اور عنید لاکھانی جیسے زبردست بلڈرز اور پرعزم قائدانہ صلاحتیوں کے لوگ موجود تھے پھر اس سلسلہ میں سندھ کی صوبائی حکومت کے تعاون سے ملیر ڈسٹرکٹ اور لیاری کے سمندری علاقوں میں باآسانی زمین حاصل کرکے منصوبہ میں بارٹر بنیادوں پر کام کرکے فوری سستے اور مفت مکانات کے وعدے کو پورا کرنے کا آغاز کرسکتے تھے۔ لیکن کام کرنے کے لئے نیک نیتی اور عزم چاہیئے ۔ (جاری ہے)