پانچ اگست 2019ء سے پانچ اگست 2023 ء آ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سالوں میں کشمیر کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق پڑا ہے یا انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں معاملہ آج بھی وہی ہے جو پانچ اگست 2019کو تھا؟ یعنی آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا کشمیر اب بھارت کا حصہ بن چکا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ اصول بھارت کی فاشسٹ حکومت کی قانون سازی سے ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا بھارت عالمی برادری کا رکن ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند ہے یا وہ اس سب سے ماورا ہے؟ کیا حق خود ارادیت کاآفاقی اصول مودی کے سنگھ پریار کی وحشتوں کے آگے دم توڑ چکا ہے؟ یاد رہے کہ آرٹیکل 370 ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس نہیں ہے۔ یہ قانون بنے یا پامال ہو جائے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ تو بھارت اور اس کے طفیلییے شیخ عبداللہ کی بندر بانٹ تھی۔ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس اقوام متحدہ کی قراردادیں اور استصواب رائے ہے ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ واردات بھارت نے 2019 ء میں ڈالی ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس سوال کا جواب 68 سال پہلے 30 مارچ 1951 ء کو اور پھر نومبر 1956 ء کو دے دیا تھا اور نہایت ہی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ دے دیا تھا۔ یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ آرٹیکل 370 کی شان نزول کیا تھی؟ یہ شیخ عبد اللہ کی کشمیر فروشی کی ایک معمولی سی قیمت تھی جو بھارت نے ادا کی اور اب وقت بدلنے پر اسے واپس لے لیا۔ کشمیر کی قانونی حیثیت نہ اس آرٹیکل کے آنے سے بدلی نہ اس کے ختم ہونے سے۔اس واردات کو اگر ہم جان لیں تو ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ آرٹیکل ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس نہ کبھی تھا نہ ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ بھارت کے کشمیر پر قبضے کے تیسرے سال مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ ایک’’آئین ساز اسمبلی‘‘وجود میں آئے جو مقبوضہ کشمیر کا آئین تیار کرے۔ شیخ عبد اللہ نے الیکشن سے قبل ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم جب جیت کر اسمبلی میں آئیں گے تو ہم بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں گے اور اس اسمبلی کا یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال سمجھا جائے گا۔ اس دوران معاملہ سلامتی کونسل پہنچ گیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں جو حق خود ارادیت کا ذکر کیا گیا،کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئندہ قائم ہونے والی اسمبلی ایک فیصلہ کر دے اور اس فیصلوں کو کشمیریوں کو حق خود ارادیت سمجھ لیا جائے؟ 30 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے اس کا جواب ایک قرار داد کی شکل میں دیا اور کہا کہ کوئی آئین ساز اسمبلی کوئی اجلاس کرتی ہے اور اس میں وہ کشمیر یا اس کے کسی حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال نہیں سمجھا جائے گا۔ وہاں انتخابات ہوئے جن کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا۔ٹرن آئوٹ صرف 5 فیصد تھا۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور مضحکہ خیزی دیکھیے کہ 73 نشستوں پر یہ کامیابی بلامقابلہ تھی۔ خیر۔اس نام نہاد اسمبلی نے اکتوبر 1956 ء میں وہ فیصلہ کر دیا جو بھارت چاہتا تھا۔ اس اسمبلی نے قرار دیا کہ:’’کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے اور ہمیشہ بھارت کا اٹوٹ انگ رہے گا‘‘۔ اس کشمیر فروشی کے جواب میں بھارت نے آرٹیکل 370 کا لولی پاپ شیخ عبد اللہ کو تھما دیا اور وہ اس خود مختاری پر بغلیں بجاتے رہے۔ نام نہاد اسمبلی کی اس واردات کے بعد معاملہ پھر سلامتی کونسل جا پہنچا۔ نومبر 1956 ء میں سلامتی کونسل نے پھر ایک قرارداد کی صورت میں بڑے واضح طور پر قرار دے دیا کہ ایسی کوئی اسمبلی کشمیر یا اس کے کسی حصے کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں اور قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا متبادل نہیں سمجھا جائے گا۔ گویا جو الحاق اس نام نہاد اسمبلی نے کیا اس الحاق کو سلامتی کونسل کی دو قراردادوں نے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ آرٹیکل 370 چونکہ اسی نام نہاد اسمبلی کی نا معتبر واردات کے جواب میں دیا گیا لولی پاپ تھا تو انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ان دونوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کشمیر اگر انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ایک حل طلب متنازعہ مسئلہ تھا تو یہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل ختم ہو گیا تو اب کشمیر کی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔ کشمیر کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادیں کرتی ہین اور ان قراردادوں کے بارے میں سلامتی کونسل نے 1996 ء میں یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ جب تک پاکستان اور بھارت دونوں اتفاق نہیں کریں گے تب تک یہ قراردادیں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود رہیں گی۔ جو مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوںاور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہو اسے بھارتی آئین میں ترمیم کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے۔’’ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز‘‘کے آرٹیکل 34 کے مطابق دو فریق ایک معاہدہ کر لیں تو تیسرا فریق اس کا پابند نہیں ہے۔یعنی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی اور بھارت آپس میں کوئی معاملہ کر لیں تو نہ اقوام متحدہ اس کی پابند ہے نہ ہی پاکستان۔اور یاد رہے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر کا عنوان ’’پاکستان اور بھارت کا تنازعہ‘‘ ہے۔جب تک اقوام متحدہ کی ہدایات اور طے کردہ اصولوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا اظہار نہیں ہوتا تب تک ایسے کسی بھی مشکوک فیصلے کی انٹر نیشنل لاء میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 103 میں بھی یہی اصول طے کیا جا چکا ہے کہ کوئی معاہدہ اگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت عائد ذمہ داریوں سے متصادم ہو تو اس معاہدے کو کالعدم سمجھا جائے گا۔ کٹھ پتلی اسمبلی سے لیا گیا کوئی فیصلہ اقوام متحدہ چارٹر کے تحت حق خود ارادیت کے حق کو ختم نہیں کر سکتا۔ جب سلامتی کونسل طے کر چکی کی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی بھی حق خود ارادیت کی نفی کرتے ہوئے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں تو بھارت اس کا مجاز کیسے ہو گیاکہ کشمیر میں کرفیو لگا کر کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کر دے؟ معاملہ بڑا سادہ سا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ یہ مسئلہ بھارت کی قانون سازی سے حل نہی ہو گا یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہوگا۔ یہ مسئلہ حل کرنے کا طریق کار بی ایک ہی ہے: استصواب رائے۔ دھوپ چھائوں زندگی کا حصہ ہے لیکن چھائوں کے ساتھ اگر دھوپ ہے تو دھوپ کے ساتھ چھاوں بھی ہوتی ہے۔ وقت کبھی رکتا نہیں ۔ یہ بدلتا رہتا ہے۔