ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد لاڑکانہ اور اس کے گردونواح میں قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے کچھ ہی برس کے بعد یعنی 80 کی دہائی میں اپنے آبائی قصبہ کو خیر آباد کہا۔ ضیا الحق کی آمریت کا دورلاڑکانہ اوراندرون سندھ میں جمہوریت کی بحالی کیلیے مظاہرے۔۔گرفتاریاں۔جبر کا ماحول— مزاحمت۔ غم و غصہ کے جذبات۔ انہی احساسات کے ساتھ میری زندگی کا اگلا سفر۔ منزل ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی وجہ تعلیم۔ ٹرین سے لاڑکانہ آئے کراچی کا یہ سفر مجھے بار بار ماضی میں دھکیل رہا تھا۔ میرے آبائی قصبہ منجوداڑو کی تہذیب، دیہات اور ضیاکے خلاف مزاحمت۔۔۔ میری منزل کراچی شہر اور طرح طرح کے خیالات مجھے جھنجھوڑ رہے تھے۔ میں نے سنا تھا کہ شہر میں جنرل ضیا کے مارشل لاء پر لوگوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ اس شہر پر دائیں بازو ضیاء کے حامیوں ‘ جنہوں نے آمریت کی قدامت پسندی پر مہر لگائی ‘ شہر پر سیاسی بالادستی حاصل کی۔ میں نے اس شہر میں یہ بھی جانا جب لوگوں نے میری شناخت ایک مہاجر کے طور پر کی۔ اس سے مجھے شہرکے بہت سارے لسانی تنازعات کی فالٹ لائنز کو جاننے کا موقع ملا۔ جب میں لاڑکانہ میں رہتا تھا تو یہ حقیقتیں ذہن و گمان میں بھی نہیں رہتی تھیں۔ لسانی شناخت کے ساتھ کراچی میں جوڑا جانا ایک تکلیف دہ پہلو تھا۔۔ان دنوں اورنگی ٹاؤن علاقہ مہاجر، پشتون لسانی فسادات کی لپیٹ میں تھا۔ برسہا برس سے بسنے والوں کے درمیان جھگڑوں میں مخالفین کو زندہ جلا دینے جیسے واقعات بھی ہوئے۔ ان دنوںمیں لگ بھگ صدی پرانے ڈی جے کالج میں زیر تعلیم تھا جو برنس روڈ کے قریب واقع تھا۔ اسی روڈ پر بھٹو کے خلاف ایک بہت بڑی لاکھوں کی ریلی ہوئی تھی۔ حالات کشیدہ تھے۔رینجرزاور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جامعات، کا لجز میں تعیناتی۔۔۔لیکن کراچی بہت بڑا تھا سمندر کی طرح- لوگوں سے بھرا ہوا، افرا تفری کا عالم تھا اور اس شور و غل والے شہر میں کسی ایک حقیقت کا رہنا مشکل تھا۔ کالج سے کچھ دور ہی صدر میں ایمپریس مارکیٹ جس کا نام ملکہ برطانیہ کی نسبت پر رکھا گیا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ برطانوی دور کے دوران ان سپاہیوں جنہوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا ان کو یہاں توپوں کے ساتھ باندھ کر مار دیا گیا۔ وہ مارکیٹ ان دنوں قصائیوں، مصالحے بیچنے والوں کی دکانوں اور سبزی کے ٹھیلوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس شہر طرزِ تعمیر خطے میں برطانوی راج کے ماضی کی عکاسی کرتا تھا۔ نیپر روڈکی بیریکس ، خوبصورت سینٹ پیٹرک چرچ، امراء اور حکمران طبقے کا سندھ کلب ، کچھ ہی فاصلہ پر فریر ہال اور باغات جو گاندھی کے نام رکھے گئے تھے، وہ ان دنوں ایک چڑیا گھر یعنی گاندھی گارڈن میں تبدیل ہو گیا تھا۔ میرے کالج کے قریب واقع آرام باغ تھاجہاں پر بقول ہندو قصہ کہانیوں کے۔‘رام اور سیتا نے آرام کیا تھا ‘اس کا نام آرام باغ ہو گیا تھا۔ یہ پاکستان کا واحد شہر تھا جہاں ساری لسانی اکائیاں اپنی شناخت اور سماجی مسائل کی پیچیدگیوں کے ساتھ مد مقابل کھڑی ہوتی ہیں۔ بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی، کشمیری اور بر صغیر کی تقسیم کے بعد آباد ہونے والے اردو بولنے والے مہاجر۔۔ یہاں پر ہر طرح کی بولیاں ملیں گی۔ گلگت بلتستان کے قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں بولی جانے والی شینا، قدیم بولی براہوی جو بحر عرب کے ساحلی علاقے بلوچستان میں بولی جاتی ہے۔ اور یہاں پر مسلمانوں کے مختلف فرقے آباد ہیں۔ بوہری، اسماعیلی ، شیعہ، سنی، ذکری۔ مذہبی اقلیتیں کراچی کے معاشرے کا حصہ بھی ہیں اور شہر کی سماجی روایتوں سے کسی حد تک علیحدہ بھی۔۔یعنی پارسی، کرسچن اور ہندو برادریاں جن کا تقسیم سے قبل شہر کی ترقی میں بڑا حصہ رہا تھا۔لیکن شہر میں اقتدار کے لئے لڑائیاں اور وسائل کی کمی، ان مختلف لسانی اکائیوں کا ملاپ جو ہر معاشرہ میں مثبت سمجھا جاتا ہے، یہاں دو دھاری تلوار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ میں نے اس روشنیوں کے شہر کو اندھیروں میں تبدیل ہوتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ ستر کی دہائی سے لسانی تفریق کے بیج بوئے جا چکے تھے -لسانی بنیادوں پر سندھی مہاجروں کے درمیان جھگڑے ہوئے تھے۔ اسوقت جب سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا۔ پھر سندھ کی تقسیم دیہی اور شہری بنیادوں پر کی گئی لیکن جب میں کراچی پہنچا شہر کی ہیئت بدلنا شروع ہو چکی تھی۔ سیاہ سائے مزید گہرے ہو تے جا رہے تھے۔ جب الطاف حسین کی قیادت میں مہاجروں کی سیاسی لسانی جماعت ایم کیو ایم بنائی گئی جس نے شہر میں طاقت کا استعمال کیا۔ اسی زمانے میں ایک کالج کی مہاجرطالبہ بشریٰ زیدی پشتون بس ڈرائیور سے ہلاک ہو گئی۔ مہاجر پشتون جھگڑے شروع ہو گئے پورا شہر مفلوج ہو گیا بالآخر ایم کیو ایم کی بالادستی‘ ایم کیو ایم کے بندوقوں کے زور پر راج نے شہر کو یکسر تبدیل کر دیا۔ جن میدانوں میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے وہاں سے بوری بند لاشیں ملنا شروع ہو گئیں۔ان ایام میں میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ یونیورسٹی کی جمناز یم ہال کی دیوار کے ساتھ تین طلباء کو مافیا اسٹائل میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا -کئی ماہ تک دیوار پر خون کے دھبے موجودرہے ۔اب شہر میں لسانی بنیادوں پر مختلف علاقے تقسیم ہو گئے۔یہ تقسیم شناخت کی سیاست یا پھر مخالف لسانی گروہ سے حفاظت کی بنیاد پر کی گئی‘پھر فوجی آپریشن ہوئے اور سینکڑوں ایم کیو ایم رہنما اورکارکن رو پوش ہو گئے۔حریف گروپ ایم کیو ایم حقیقی سامنے آیا توسینکڑوں آپس کی لڑائی میں مارے گئے ۔ ان میں میرے ساتھ کرکٹ کھیلنے والا شعیب عرف شوبی بھی شامل تھا وہ موسیقی اور بریک ڈانسنگ کا بیحد شوقین تھا ‘پھر وہ الطاف حسین کے باڈی گارڈز میں شامل ہو گیا ۔ایم کیو ایم کی آپس کی لڑائی میں شوبی مارا گیا۔ جب اس کے مرنے کی خبر ماں کو سنائی گئی تو وہ اپنے اکلوتے بچے کی موت کا سنتے ہی ہارٹ اٹیک سے مر گئی۔ میں اب صحافت میں آگیا تھا۔پولیس مقابلے معمول بن گئے تھے۔ جب 90 ء کی دہائی کے وسط میں کراچی تشدد کی لپیٹ میں تھا ،اس وقت میں غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے منسلک تھا۔۔ہمارا ایشیائی ریجنل ڈیسک غیر رسمی طور پر ‘‘تھری کے ‘‘کہلاتا تھا یعنی کابل، کراچی، کشمیر۔ پھر 9/11 کا واقعہ ہوااسی شہر سے ڈینیل پرل کا اغوا اور قتل ہوا۔میں ان دنوں بی بی سی سے منسلک تھا۔ پیرس میں صحافی کی فرانسیسی اہلیہ کے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور واقعہ کے سنگین مضمرات کی شدت کا مزیداندازہ بھی ہوا۔ تفتیش کار نائن الیون میں ملوث خالد شیخ محمد اور رمزی بن الشبہ کی کراچی میں موجودگی کے نشانات بھی تلاش کرتے رہے۔ شہر میں دہشتگردی کے واقعات بڑھتے گئے اور ان واقعات سے کراچی پوری دنیا میں خطرناک شہروں میں شمار ہونے لگا - کراچی میں زیر زمین مافیا، واٹر مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، لینڈ مافیا تھے ان سب کا گٹھ جوڑ سیاسی تشددمیں ملوث گروہوں سے تھا ،یہ شہر ملک کی معیشت کی شہ رگ ہے تاہم اس کے متوازی سیاہ دھن کی معیشت ہے جس کو زیر زمین مافیا ،دنیا کے اس گنجان ترین شہر کی بھول بھلیوں میں چلا رہی ہے۔رینجرز کے مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن سے حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ لیکن دو سے ڈھائی کروڑ آبادی والا یہ شہر دوبارہ مفلوج ہو گیا ہے -اس بار تشدد سے نہیں بلکہ شہری نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے۔ ٹنوں کچرا، جگہ جگہ گندہ پانی اورمکھیوں کی یلغار۔۔غرض یہ کہ ماضی کے ایشیائی پیرس کہلانے والے اس شہرکا دنیا میں نا قابل رہائش شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔ نظام کے درہم برہم ہونے سے اس شہر کی سیاسی قوتوں کے مابین سیاسی جنگ جاری ہے۔اس شہر کی بدحالی دراصل ماضی میں جرم کی دنیا کے بھوت نما کرداروں کے کرتوتوں سے جڑی ہے۔ جنھوں نے اس شہر کو کاری ضربیں لگا کر لہو لہان کیا۔ایم کیو ایم کے پاس اب وہ طاقت رہی نہیں ،مسلح جتھے تتر بتراور تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوچکا ہے لیکن ماضی کی حمایت کی وجہ سے مقامی حکومت کا نظام ان کے پاس ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے حالیہ انتخابات میں کراچی سے سب سے زیادہ انتخابی نشستیں حاصل کیں لیکن تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں جو شہر کے انتظامی معاملات سنبھال سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس کے پاس صوبائی حکومت ہے انہیں کبھی اعتماد نہیں رہا کہ وہ اس شہر کو سیاسی طور پر جیت سکتے ہیں سو کراچی کے ساتھ انکی بے رخی ہے۔حالیہ بارشوں نے کراچی کی روح پر لگے ماضی کے زخم پھر سے کھول دیئے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب اس شہر کو تشدد نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔۔ہڑتال کا دن تھا ، کاروبار جبری طور پر بند، سڑکوں پر سناٹا، نقاب پوش نوجوان گاڑیوں کو نذر آتش کرنے میں مصروف اور ہم صحافی کوریج میں مصروف تھے۔ اسی دوران مجھے یاد ہے لیاقت آباد علاقے میں ایک مسلح گروہ کے سرغنہ سے پوچھا کہ شہر کے مسائل کا حل کیا ہے "شہر کو تالا لگائیں اور چابی ہمارے حوالے کردیں" اس وقت شہر کے کنٹرول کی چابی پرجنگ جاری ہے۔