ہمیں فیض سے پیار ہے ان کی نقش فریادی ہماری شاعری کی اعلٰی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔اس کا دیباچہ بھی ہمارے پسندیدہ نظم نگار ن م راشد نے لکھا ہے۔یہ کتاب ان کے اپنے پہلے مجموعے ماورا سے بھی کہیں بہتر ہے۔ہمیں ذاتی طور پر فیض صاحب کے گھر ایک دو بار جانے کا اتفاق ہوا۔ڈاکٹر علی ہاشمی ان کے نواسے ہیں جب وہ علی ہاشمی ہیں تو ظاہر ہے وہ شعیب ہاشمی کے بیٹے ہیں۔ان کے کمرے میں کلیات ِ راشد دیکھ کر اور فیض کی ایک کتاب بھی نہ پا کر ہم خاصے مایوس ہوئے۔جب اس کی وجہ پوچھی تو وہی کہ راشد ہی شاعروں کا شاعر ہے مگر انہوں نے اپنے نانا کی شاعری کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ اسی کتاب کے مقدمے میں راشد نے واضح کر دیا تھا کہ شاعر رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑا ہے۔ اس کی سرشت اسے عشق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر اکساتی ہے اور وہ زندگی کی برہنگی اور تلخی کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔راشد نے مزید لکھا کہ فیض اپنی ابتدائی نظموں میں بورژوائی حسن پرست اور انحطاط کا دلدادہ شاعر ہے۔عجیب بات ہے کہ لوگ راشد کی اس بات کو بھول گئے اور فیض کی رومانویت کے شکار ہوتے چلے گئے۔ فیض کی بنیادی سوچ فیوڈل ہے اور اس سوچ کو انہوں نے کبھی چھپایا بھی نہیں ہے۔انہوں نے ساری زندگی کسی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ بھی کبھی نہیں لیا اور عام طبقے سے دوری ان کی عادت ثانیہ تھی۔ان کی دوستیاں اور تعلقات سب اسی ہائی جنٹری سے تھے جنہوں نے اب انہیں اون کر لیا ہے یہ وہی بات ہے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا اب چونکہ یہ مصرع فیض صاحب کے ساتھ لگ کر بدنام بھی بہت ہوا ہے کہ فیض آج بھی مشیر ہے کل بھی مشیر تھا لیکن یہ شعر مرزا جہاں بخت جہاں دار کا ہے آخر گِل اپنی صرف ِ در ِ مے کدہ ہوئی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا فیض نے کہا تھا کہ ان کا پیغام عوام تک پہنچا ہی نہیں مگر جن تک وہ اپنا پیغام پہنچانا نہیں چاہتے تھے وہی ان کی شعر کی قبر کے متولی بن گئے اور کہا جانے لگا کہ فیض کا میلہ ٹھیلہ محض کارپوریٹ تہوار ہے۔ جہاں گانے گائے جاتے ہیں اور لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ٹائپ کی بورژوائی شاعری پر رقص کیا جاتا ہے۔ جب آپ زیادہ لبرل ہوتے ہیں پروگریسو ہوتے ہیں یا بننے کی اداکاری کرتے ہیں جو فیض کے میلے ٹھیلے میں ہوا تو یہی ہوتا ہے کہ متشاعر ہندوستان واپس پہنچ کر کہتا ہے کہ وہ تیسری جنگ جیت کر آیا ہے۔فیض کی دوستیاں اور ملنا ملانا سب خواص سے تھا۔ ساری زندگی وہ عام آدمی سے دور رہے۔اشرافیہ نے فیض پر اپنی ملکیت ثابت کی ہے کہ فیض کے میلے ٹھیلے میں تین ہزار کا ٹکٹ خریدنا غربا کے بس کی بات نہیں بلکہ وہ تو اس ہال میں موجود ہی نہیں ہوتے۔بلکہ وہ تو الحمرا کی عمارت میں کہیں نظر نہیں آتے۔ جس طبقے نے فیض پر اپنا حق سمجھ رکھا ہے یہ لبرل گروہ چند سال پیشر امن کی شمع کا پرچارک بھی تھا۔ امن کی شمع کے ایک پرچارک کو دہلی میں ایک کانفرنس میں پانچ ہزار ڈالر ہال میں تالیوں کی گونج میں دیے گئے اس لیے کہ اس نے پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے پر کسی رنج کا بھی اظہار بھی نہیں کیا تھا بلکہ اس کا موقف تھا کہ پاکستان کو معافی مانگنی چاہیے۔یہ ان پانی کی خاطر ہر شے قربان کر دیں۔ دوئم یہ کیسی ترقی پسندی ہے جو ہندوستان کی گود میں بیٹھ کر اسی کو ماں ماتا سمجھا جائے۔فیض کے میلے ٹھیلے میں جاوید اختر کو نہیں پتہ تھا کہ دو قومی نظریہ کو خلیج ِ بنگال میں غرق کرنے کا اعلان کس نے کیا تھا۔ فیض کے ایسے ماننے والے جو جاوید اختر طرح کے لوگوں کے میزبان تھے ان کی حرکات دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ فیض صاحب کے خواص پیروکار وطن پرست ہیں بھی یا نہیں؟ جاوید اختر 17 سے 19 فروری تک پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں منعقد ہونے والے آٹھویں فیض میلے میں شرکت کے لیے آئے تھے، جہاں انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی۔ فیض کی کل کمائی خواص کی ہی محبت ہے۔بھرے پیٹ والے اس کے عشاق اور لبرل طبقہ کا وہ جنون ہیں۔اس لبرل طبقے کی تان پاکستان کی مخالفت پر ٹوٹتی ہے۔یہ اب بھی وہ منزل ابھی نہیں آئی کے قیدی ہیں کون سی وہ منزل ہے کی اس طبقے کو تمنا ہے کون سی نعمت ہے جو دیہہ خدا نے ان پر ارزاں نہیں کی۔سٹیٹس دولت اور شام کو رنگین کرنے والی چیزیں اب ایک انقلاب ہی رہ جاتا ہے جو ابھی ان کی دسترس سے دور ہے۔اگر فیض کے مطابق وہ منزل ابھی نہیں آئی کیا وہی سوشلزم تھا جو اس کلاس کی تمام سہولیات کو ملیا میٹ کر سکتا ہے کیا یہ اشرافیہ اسی طبقاتی تفاوت کی بات کرتی ہے یا مادر پدر آزادی ان کا مطمع نظر ہے۔ بھارتی نغمہ نگار و لکھاری جاوید اختر نے گزشتہ ہفتے پاکستانی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہونے والے فیض میلے میں کہی گئی اپنی بات پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ پاکستان سے بھارت پہنچے تو انہیں ایسا لگا جیسے وہ تیسری جنگ جیت کر آئے ہیں۔ فیض کے میلے ٹھیلے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور فیسٹیول میں جہاں بہت سی کوتاہیاں ہوئیں وہاں ایک اور بڑی بے ادبی بھی کی گئی انتظامیہ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری سے بھی ناواقف نکلی حفیظ جالندھری کی تصویر کی بجائے جگن ناتھ آ زاد کی تصویر لگا دی گئی۔ جب ادبی پروگرام ایسے انقلابی لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔یہ اسی انقلاب کا تسلسل ہے جس کی داعی فیض کی آل اولاد ہے۔اسی میلے کی ایک نجی محفل میں ایک خاتون ہاتھ میں شراب کا گلاس اور اپنا سر جاوید اختر کی رانوں پر رکھ کر مستی کے عالم میں ایک گیت الاپ رہی تھی۔ اس آل اولاد کے نزدیک یہی شاید فیض کی رومانویت اور یہی اس کا انقلاب ہے۔