عمران خان رات قوم سے نہیں ، جوان جذبوں والے اپنے ان کارکنان سے مخاطب تھے جو کرپٹ عناصر کو نشان عبرت بنا دینے کی کوئی سی بھی قیمت دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔معاملہ مگر یہ ہے عمران خان کے وابستگان میں صرف اٹھتی جوانیوں کا جوش نہیں ، کچھ ایسے بھی ہیں جن کی کنپٹیوں کے سفید بال اب رنجِ عشق کھینچ لانے کی تاب نہیں رکھتے ۔ یہ وہ ہیں جو قوم کو اس گڑھے میں لا پھینکنے والوں کے بے رحم احتساب کی تمنا ضرور رکھتے ہیں مگران کی ہتھیلی پر یہ سوال بھی رکھا ہے کہ گڑھے سے نکالنے کی کوئی تدبیر بھی تو کی جائے؟ احتساب کے افراط اشتیاق میں آپ نے دفتر لکھ ڈالے، وارفتگان عشق کو اب یہ بھی تو بتائیے کہ آپ کی پالیسی کیا ہو گی؟ آپ کا ویژن کیا ہے؟کیا محض دوسروں کی ہجو میںادا طرازی سے نالے کو نغمہ بنایا جا سکتا ہے؟معاملہ فہمی کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار ارب کے محصولات کا پہاڑ جیسا ہدف مقرر کر کے دعویٰ فرمایا معیشت سنبھل گئی ہے۔سوچ ہی لیا ہوتا اگر ہدف پورا نہ ہو سکا تو اگلے سال کیا ہو گا؟ ایسا نہیں کہ اس ملک میں کبھی احتساب نہیں ہوا، حضرت عشق کے مکتب میں خرابی یہ رہی کہ اس کا اعتبار جاتا رہا۔احتساب تو نواز شریف نے بھی کیا تھا ، شہر خوباں میں سیف الرحمن کے کٹہرے کا آج ایک چھٹانک اعتبار بھی ہو تو بتائیے۔پر ویز مشرف کا احتساب جس بانکپن سے آیا تھا اسی وارفتگی سے ’ ہم خیالوں‘ کی قدم بوسی کر کے لوٹ گیا۔ عمران سے توقع یہ ہے وہ ایک ایسا احتساب کرجائیں جسے واقعی احتساب کہا جا سکے۔وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے برنگ شعلہ دہکنے کو احتساب نہیں کہتے۔ انتقام اور احتساب کے درمیان ایک باریک سی لائن ہوتی ہے، افتاد طبع کے کسی کمزور لمحے میں اس پر پائوں آ جائے تو سارا عمل اکارت جاتا ہے اور پھر قوم کو لوٹ کھانے والے عدالت پیشی پر جاتے ہوئے ایک ادا سے وکٹری کا نشان بناتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے حصے کے بے وقوفوں کو یہ باور کرا چکے ہوتے ہیں وہ احتساب کے نہیں انتقام کے کٹہرے میں ہیں۔شام بجٹ پیش ہوا ۔رات گئے وزیر اعظم قوم سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ امکان تھا بجٹ کے بعد اب وہ اپنی پالیسی بتائیں گے کہ قوم کی تعمیر کیسے ہو گی لیکن وہ تو اور ہی کہانی لے بیٹھے۔مصحفی یاد آئے : ’’پھر ہوا موسم برسات شروع‘‘۔میں نے انہیں نہیں چھوڑنا ، میں نے کسی کو نہیں چھوڑنا۔حضور ، رات کے اس پہر آپ بس یہی بتانے آئے تھے؟کوئی بجٹ کی بات کہتے، کوئی دکھ بانٹتے، کوئی مستقبل کی تصویر دکھاتے ، امکانات کا کوئی جہاں آباد کیا ہوتا، صحرامیں نخلستان کی کوئی نوید دیتے۔ ہر موقع پر وہی موسم برسات، وہی رم جھم ؟ احتساب ہر اس شخص کے دل کی آرزو ہے جو اپنے وطن کی تعمیر چاہتا ہے۔مگر احتساب اپنے پورے وقار اور وجاہت کے ساتھ۔ایک کمیشن بنانا ہی تھا تو اس کا اعلان اس غیر معمولی ہیجان میں لپٹے اہتمام کے ساتھ کیوں؟ معمول کی کارروائی کے مطابق ایک نوٹیفیکیشن جاری ہو جاتااور کام شروع ہو جاتا۔ابھی کمیشن بنا نہیں اور شان نزول نے اس پر سوال اٹھا دیے۔پھر کمیشن آپ کی سربراہی میں بنے گا تو کیا اس کی وجاہت باقی رہے گی یا اسے انتقام کا عنوان دے کر کرپٹ عناصر ایک بار پھر مظلوم بن جائیں گے؟رات کے اس پہر کمیشن کا اعلان بذات خود ایک سوال ہے۔کیا یہ حکمت عملی کا حصہ ہے کہ ہر تین ہفتے بعد ایک نیا موضوع سر بازار رکھ دو۔ دو ہفتے گزریں تو ایک نیا موضوع چوراہے میں چھوڑ جائو۔کیا یہی وہ’’ تھری ویک ڈاکٹرائن‘‘ ہے شہر اقتدار میں جس کا شہرہ ہے؟احتساب ہو گا کیسے؟ جس آصف زرداری کے دور میں لیے گئے قرضوں کا احتساب مقصود ہے اسی آصف زرداری کا وزیر خزانہ تو آپ نے مشیر خزانہ کے منصب پر فائز کر رکھا ہے ۔اس سے سوال پیدا ہوتا ہے آتش سوز محبت کے پیش نظر محض جلا کر راکھ کر دینا ہے یا کندن بنانا؟وہ دور اتنا ہی برا تھا تو اس کا وزیر خزانہ آپ کے نزدیک اتنا معتبر کیسے ہو گیا؟ کیا بیرونی قرضوں پر کوئی واردات وزیر خزانہ کے علم میں لائے بغیر کی جا سکتی ہے؟ اگر زرداری کی ایسی کوئی واردات حفیظ شیخ کے علم میں تھی تو ان کی دیانت پر سوال اٹھتا ہے ، وہ لاعلم تھے تو ان کی اہلیت سوال بن جاتی ہے۔دونوں صورتوں میں ان کا موجودہ منصب پر فائز کیا جانا وضاحت طلب اقدام ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں جو بھاری قرض لیا گیا وہ آخر کہاں خرچ ہوا۔ یہ سوال میں نے بھی بہت مرتبہ ان کالموں میں اٹھایا۔ لیکن اسد عمر جب وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے اس سوال کا جواب تفصیل سے دے دیا۔ یہ سینیٹ کے281 ویں اجلاس کی بات ہے۔ یہ 31 اگست 2018 کی بات ہے۔سوال نمبر 137تھا اور یہ سوال سینیٹر چودھری تنویر نے پوچھا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ2008 سے لے کر اب تک کتنا قرض لیا گیا ، کس کس ملک سے لیا گیا اور اس دوران کتنا قرض واپس کیا گیا؟اسد عمر صاحب نے بطور وزیر خزانہ اس سوال کا تحریری جواب دیاجو سینیٹ ریکارڈ کا حصہ ہے۔اسد عمر نے بتایا کہ ان دس سالوں میں69 اعشاریہ 174 بلین ڈالر (69.174) قرض لیا گیا اور اس عرصے میں 47 اعشاریہ 8 بلین ڈالر قرض واپس کیا گیا۔باقی بچے 22 بلین ڈالر۔ اس کا حساب ضرور کیجیے مگر ملک میں کچھ ترقیاتی کام بھی ہوا، یہ کام بھی مت بھولیے ۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ سی پیک کے ابتدائی مرحلے میں چین سے بھی کافی قرض لیا گیا۔وار آن ٹیرر میں بھی ہمیں نقصان ہوا اسے بھی نظر انداز نہ کیجیے۔ یاد رہے کہ زرداری دور میں جب شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے تو انہوں نے کہا تھا پاکستان کو وار آن ٹیرر میں پچھلے سات سالوں میں 34 اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جب سے یہ جنگ شروع ہوئی اس عرصے میں پاکستان کو ہونے والے کل نقصان کا تخمینہ سرکاری سطح پر 118بلین ڈالر ہے۔کولیشن سپورٹ فنڈ میں بھی تعطل آتا رہا لیکن ہم عشروں سے ایک طرح سے حالت جنگ میں ہیں۔ایک سادہ سے تخمینے سے معلوم ہو سکتا ہے قرض کیوں لینا پڑا۔اس کے لیے اتنے اہتمام سے کمیشن بنانے کی کیا ضرورت تھی۔اسد عمر صاحب سے ہی پوچھ لیا ہوتا۔