مہاجر قومی موومنٹ کے خود ساختہ جلاوطن قائد نے شلوار قمیص کی جگہ کرتا پاجامہ پہننے کی روایت ڈالی تھی کہ شلوار سے پنجابی سامراج کی بالادستی کا تاثر ملتا تھا حالانکہ جن حکمرانوں کے دور اقتدار میںاردو بولنے والے سیاسی بے انصافی کا شکار ہوئے اور جن کے خلاف انہوں نے تحریکیں چلائیں، ان میں سے کوئی پنجابی نہیں تھا ۔ایک پشتون تھا تو دوسرا سندھی۔کوٹہ سسٹم کا آغاز اردو بولنے والے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے خالص انتظامی بنیادوں پہ کیا۔ایم کیو ایم کو پالنے پوسنے والا آمر البتہ ایک پنجابی تھا، ایم کیو ایم جس کے سائے میں تناور درخت بن گئی۔ اس لحاظ سے اسے پنجاب کا مرہون احسان ہونا چاہئے تھا لیکن پنجابی سامراج بڑا آسان نشانہ تھا اوررواج بھی یہی تھا۔ یہ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ قائد تحریک کی روایت حکم کا درجہ رکھتی تھی، جس سے سرتابی کی کسی کو مجال نہ تھی ۔ راوی کو سند مانگنے کی قطعی اجازت نہیں تھی کیونکہ یہ قطعی ضعیف نہیں تھی۔اس لئے شلوار کی جگہ پاجامے نے لے لی جس کا حال بزرگوار کے اس پاجامے جیسا ہوگیا ہے جسے ان کی عنقریب ہونے والی بیوہ ، بہو اور بیٹی نے حسب توفیق کاٹ پیٹ کر چھوٹا کردیا ہو کیونکہ موصوف کو گلہ تھا کہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں اور سب اپنی اپنی مصروفیات میںمگن ہیں۔ اب حسب فرمائش آپریشن کلین اپ تو ہوگیا ہے لیکن یہ کٹا پھٹا پاجامہ کسی کو فٹ نہیں آرہا۔ فاروق ستار کو تو بالکل بھی نہیں لہٰذا ان کا غصہ بجا ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے حقیقی وارث وہی تھے ۔ اب ان کا تازہ ترین مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پتا لگایا جائے کہ کل کے سیکٹر انچارج آج اربوں کے مالک کیسے بن گئے۔تس پہ انہیں جواب دیا گیا کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ تب سے اب تک بات واپس نہیں آئی۔ کراچی اپنی نفسیات اور ساخت دونوں میں باقی ملک سے بہت مختلف شہر ہے۔ ملک کا معاشی حب ہونے کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر سے پرندے اڑان بھر کر دانہ دنکا چگنے اس چھتنار درخت پہ بسیرا کرتے رہے بلکہ اپنے جائے وقوع کی وجہ سے یہ عالمی قوتوں کی دلچسپی کا مرکز بھی رہا۔ دانہ دنکا چگنے والوں نے ٹرانسپورٹ اورکپڑے کے کاروبار جما لئے اور پلازوں کے مالک بن گئے۔اس شہر کی معاشی ترقی میں ان کا بڑا ہاتھ تھا اور اہلیان کرانچی ان ہی سے چین سے سمگل شدہ بہترین سلک اور روس اور ملائشیا کا کاٹن، میٹروں اور گزوں نہیں ، کلو کے حساب سے سستا خریدتے اور خوش رہتے تھے۔ کراچی جیسے افق کے کناروں تک پھیلے شہر پہ ان ہی کی دندناتی ٹرانسپورٹ انہیں ایک کونے سے دوسرے کونے تک ارزاں ترین نرخوں پہ پہنچا دیتی تھی۔سب مل جل کر گزارا کررہے تھے اگرچہ سیاسی تندور میں کوٹہ سسٹم کی لکڑیا ں جھونکی جارہی تھیں۔ ہجرت نے جہاں اور زخم دیئے تھے وہاں یہ حقیقت بھی منہ پھاڑے کھڑی تھی کہ اردو بولنے والے مہاجروں کے پاس کل اثاثہ تعلیم تھا۔نہ ان کی زرعی زمینیں تھیں نہ ہی وہ سرمایہ دار تھے۔ ان کی غالب اکثریت نوکری پیشہ تھی یا علم وادب سے وابستہ تھی یا پھر بیوروکریسی میں ان کا کچھ عمل دخل تھا۔مسلم لیگ جس کا ساتھ دے کر انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک چلائی،سے ان کی دوری کی وجہ بھی یہی تھی کہ یہاں وڈیرہ شاہی، زمینداروں اور مقامی سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا ۔نوکری پیشہ اردوبولنے والوں کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں اور سرکاری یا نجی شعبے میں ملازم ہوجائیں۔ تعلیم اور نوکری دونوں پہ کوٹہ سسٹم پہرا دے رہا تھا۔قومی اداروں پی آئی اے، اسٹیل مل اور فوج وغیرہ میں دوسری قومیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ ناخواندہ یا نیم خواندہ سندھیوں کی دلجوئی کے لئے بھٹو شہید آبادی کے تناسب سے کوٹہ سسٹم کا انتظام کرگئے تھے جو براہ راست مہاجروں کے خلاف جاتا تھا ۔ یہ ایک حقیقت تھی اور اسے اچھی طرح استعمال کیا گیا۔ مہاجر شناخت ایک اور مسئلہ تھا۔ذات پات پہ جان دینے اور لینے والوں سے مہاجر شناخت کیوں ہضم نہ ہوئی یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔جماعت اسلامی کی مخالفت سمجھ میں آنے والی تھی کیونکہ اسی کے سنگھاسن پہ ایم کیو ایم آکر پوری جاہ وجلال کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔۔اردو بولنے والے جماعت اسلامی کے اراکین جو پنجابیوں میں اپنے بچوں کی شادیوں کے روادار نہ ہوتے تھے ایم کیوایم کے خلاف مذہب کی تلوار سونتے میدان میں آئے اور پسپا ہوگئے کیونکہ ایم کیو ایم نے شناخت کا حقیقی مسئلہ اٹھا دیا تھا۔ایم کیو ایم کو اس کے سخت گیر ایڈمنسٹریٹر نے ان ہی خطوط پہ استوار کیا جس پہ اس کی مخالف جماعت اسلامی استوار تھی۔ دونوں متحارب جماعتوں کے انتظامی ڈھانچوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ وہی نظم و ضبط اور وہی مرکزیت۔کراچی کی وراثت کی قدیمی دعوے دار دو ہی ذاتیں تھیں۔ ایک پارسی جو اعلی ترین سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور آٹے میں نمک کے برابر تھے ۔ یہ کسی سیاسی سرگرمی کے حق میں نہیں تھے اور دل لگا کر کراچی کی ساحلی پٹی پہ اپنے ہوٹلوں کلبوں اور پرانے کراچی کی اربوں کی معاشی شاہراہوںمیں سرمایہ کاری کرتے اور شامیں آباد کرتے ۔ ان ہی میں ارد شیر کاوس جی غالبا وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کھل کر اس وقت ایم کیو ایم کی بہیمانہ اور مجرمانہ سرگرمیوں پہ اپنے مخصوص انداز میں دبنگ انداز میں تنقید کی جب میڈیا سانس روکے قائد تحریک کے ایک اشارے کا منتظر ہوتا تھا۔ دوسرے وہ میمن جنہوں نے کراچی کے کاروباری علاقو ں کی رونق سنبھال رکھی تھی اور شہر کے ریوینیو میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔یہ بڑے مذہبی اور پرامن لوگ تھے۔انہوں نے ایم کیو ایم کی بدمعاشی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے کیونکہ انہیں کاروبار کرنا تھا۔ کچھ انہیں نظریاتی طور پہ بھی ایم کیو ایم سے انسیت تھی ۔ یہ اسے چندہ بھی دیتے تھے اور بھتہ بھی۔ صرف ایمپریس مارکیٹ سے اربوں کا بھتہ لندن پہنچایا جاتا تھا۔اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے۔ایم کیو ایم کی نظریاتی بنیاد مضبوط تھی اور اس پہ کام ہونا چاہئے تھا لیکن ہوایہ کہ مہاجروں کو نسل کشی کے خوف میںمبتلا کرکے وی سی آر اور ٹی وی بیچ کر ہتھیار خریدنے کی ہدایتیں جاری کی گئیں۔کل کے گلی محلے کے بدمعاش سیکٹر انچارج بن گئے جن کی مرضی اور علم کے بغیر ان کے علاقے میں پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔اسی گز کے کوارٹروں میں رہنے والی پہلے ریکارڈ توڑ ووٹوں سے ایم این اے، ایم پی اے بنے پھر کلفٹن میں کراچی کے مہنگے ترین اپارٹمنٹس کے مالک بن گئے۔یہ سب کچھ فاروق ستار کی موجودگی میں ہوتا رہا ،بائیس اگست کے بعد جن کا سب سے زیادہ حق ایم کیو ایم پہ تھا لیکن متحد رکھنے والی ایک ہی شخصیت تھی جس کے گرد منی لانڈرنگ کا پھندا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ فاروق ستار کس سے حساب مانگ رہے ہیں؟