عرفان شہود کی کتاب پنجیری کی نثر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ورڈز ورتھ کے الفاظ میں صرف شاعری ہی احساسات کا سپانٹینیس اظہار نہیں ہوتی بلکہ کبھی دریا کے بہاؤ جیسا بے ساختہ اظہار نثر میں کی صورت بھی وارد ہوسکتا ہے۔ پنجیری کی نثر ایک وارفتگی اور سرشاری کے عالم میں لکھی گئی ہے۔تخلیقی نثر کا یہ ذائقہ بالکل نیا ہے۔ یہ سفرانچے ترقی یافتہ ملکوں کی سہولتوں سے آراستہ جدید زندگیوں کا احوال نہیں بلکہ پاکستان کے شہروں، دیہاتوں کھیتوں, صحراؤں اور پہاڑوں میں کیے گئے سفر کا دلپذیر بیان ہیں۔ یہ بلوچستان کی پیاسی سرزمین کی کہانی ہے ،مکلی کے بے نوا قبرستان کی داستان کا عکس ہیں، اس میں تھرپارکر کی قدیم پیاسی زمین کا احوال ہے جہاں زندگی خشک ٹوبوں سے پانی کھرچتی ہے۔عرفان شہود اپنی دھرتی کے عشق میں مبتلا ہے۔ اس دھرتی کو میسر نعمتوں اور اس کے وجود پر لگے ہوئے زخموں کو محبت کی جس نظر سے اس نے دیکھا اور محسوس کیا اسی نظر سے ہر پاکستانی کو اپنے وطن کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی تحریر صحرائے گورستان نوشکی کے حوالے سے ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک تخلیق کار کبھی مچھ کی کوئلے کی کان میں مر جانے والے مزدوروں کا نوحہ لکھتاہے تو کبھی صحرائے نوشکی کی قحط سالی میں زندگی جبر کی طرح کاٹتے ہوئے بلوچیوں کی تکلیف پر اشک بہاتا ہے کچھ اشک قلم سے ٹپک کر قرطاس پر اتر آتے ہیں۔ "نوشکی تیرے صحرائی بچوں کے سینوں کو راحت ملے۔ تیری خشک سالی کی ساعت مدار اذیت کی گھڑیوں سے نکلے تیرے نوجوانوں کے سینے ہرے ہوں" کتاب میں بلوچستان کشمیر سندھ بلتستان خیبر بختونخوا اور پنجاب کے حوالے سے کیے گئے بیس اسفار کا احوال ہے۔سفرانچے لکھتے لکھتے کچھ تحریروں کو افسانے کی شکل دے دی گئی نہ جانے کیوں مگر جو بھی لکھا ہے متاثر کن ہے۔ سفر عرفان شہود کی روح میں بسا ہے ایک جگہ لکھتا ہے کہ تیرتی ہوئی اس بے بہا کائنات میں ڈوب جانا بھی ایک کیف انگیز عمل ہے یہ سفرانچے ایسے ہی کیف انگیز عمل کا اظہاریہ ہیں۔عرفان شہود شاعر بھی ہے اور نثر نگار بھی حساس طبیعت لکھاری کہتا ہے کہ میں کسی حادثے کو دیکھ کر تماشہ نہیں بنتا بدن میں سنسنی پھیل جاتی ہے طبیعت کی نرمی کے باعث زندگی نے خوب پامال کیا یہ ایک سو اڑتالیس صفحے کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زخم کو آئینہ بنا لینے کے ہنر سے واقف ہے سلیقہ ہو تو جمال آئینے میں آتا ہے کے مصداق اس کے ہنر میں سلیقہ موجود ہے سو ایک جمال سفرانچے کی ہر سطر میں بکھرا پڑا ہے۔پنجیری کو ایمل پبلکیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔دوسری کتاب فریم سے باہر دعا عظیمی کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے۔کتاب کا نام بھی چونکا دینے والا ہے۔دعا کے افسانے پڑھتے ہوئے مجھے مظہر الاسلام یاد آئے ان کی نثر کا ذائقہ۔دعا کے افسانوں میں محسوس ہوتا ہے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی خوبصورت نثر ہوگی۔جہاں افسانوں کے موضوعات روایتی نہیں وہیں ان کا تخلیقی ٹریٹمنٹ بھی غیر روایتی ہے۔خواتین تخلیق کاروں کے لیے روز مزہ ذمہ داریوںکے ضروری بوجھ ڈھوتے ہوئے لکھاری کے طور پر اپنے اندر کی کیفیات کا اظہار کرنا آسان نہیں ہوتا۔ دعا عظیمی کو داد دیتی ہوں کہ نہ جانے کتنی دہائیوں سے یہ افسانے ان کے اندر بنتے رہے اور وہ اس کے اظہار پر بند باندھتی رہی مگر ان کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ بالاخر ان افسانوں کو انہیں کاغذ اور روشنائی کے حوالے کرنا پڑا۔یہ دعا عظیمی کی پہلی کتاب ہے۔احساسات کے اظہار پر ان کی مضبوط گرفت اور افسانے کی تخلیقی ٹریٹمنٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ بھی اچھا ہے اور مشاہدہ بھی۔ تحریر میں غیر ضروری طوالت بھی نہیں جو کسی بھی لکھاری کے ہنر مند ہونے کی دلیل ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دعا عظیمی شعر کہتی ہیں یا نہیں مگرنثری نظم جیسے خوبصورت تخلیقی جملے ان کے افسانوں میں جا بجا بکھرے ہیں۔ افسانوں کا چونکا دینے والا تخلیقی اختتام ایسا ہے کہ بات ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہو جاتی ہے۔بعض افسانوں کا ایسا چونکا دینے والا اختتام پڑھنے والے کو چند ثانیے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔کہانی کار اپنی کہانیوں میں اپنی ذات ہزارہا رنگ بیان کرتا ہے۔ فریم سے باہر کتاب کا آخری افسانہ ہے جس کے عنوان پر کتاب کا نام رکھا گیا ہے یہ علامتی افسانہ اس شدید گھٹن اور جبر کو بیان کرتا ہے جو معاشرے کے طے شدہ اصول اور رسم و رواج کے بنائے ہوئے فریم میں جکڑی زندگیوں کو سہنے پڑتے ہیں۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ دعا عظیمی نے اس افسانے میں اپنی زندگی کی اس کشمکش کو بیان کیا جو ایک عام عورت اور اس کی تخلیق کار ہمزاد کے درمیان موجود رہی۔تخلیق کار ہمزاد زندگی کے طے شدہ فریم سے باہر نکل کر اظہار ذات کی خواہش مند تھی سو اس نے اپنی ذات کا اظہار ان خوبصورت افسانوں کی صورت کیا ہے۔ ان افسانوں کی ہر سطر کے پیچھے اس ریاضت کا پتہ چلتا ہے جس سے وہ بطور تخلیق کار گزرتی رہی۔کتاب کے آغاز میں "کہانی سے پہلے کہانی "کے عنوان سے جو ایک دلپذیر تحریر موجود ہے وہ بھی اسی کشمکش کا اظہار ہے۔کتاب 27 افسانوں اور 10 نثرانوں پر مشتمل ہے۔افسانوی ادب میں یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ بک کارنر جہلم نے کتاب کو شائع کیا ہے۔دونوں کتابیں ایسی ہیں کہ آپ خریدیں اور پڑھیں تو مایوس نہیں ہوں گے۔