گو کہ حالیہ عرصے میں بھارت اور ترکیہ کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، دو طرفہ سالانہ تجارت کا حجم بھی 10بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، اور نئی دہلی میں ہونے والی گروپ 20ممالک کی میٹنگ میں صدر رجب طیب اردوان بھی شرکت کرنے والے ہیں، مگر پچھلے ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے یونان کے ایک روزہ دورے نے ترکیہ کو تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ ایتھنز میں جس جامع دفاعی شراکت داری کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ بھارت اب بحیرہ روم میں نئی گریٹ گیم کا حصہ بننے والا ہے۔اس گریٹ گیم میں اسرائیل، یونان اور یونانی قبرص، ترکیہ کی گھیرا بندی کرکے اس کے بحری اقتصادی زون کو سکیڑکر اس خطے میںموجود تیل اور گیس کے ذخیروں کو اس کی دسترس سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ بحیرہ روم ایک انتہائی اسٹریٹیجک زون میں واقع ہے ، اس کی 46ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر 22ممالک آبادہیں۔ مودی کے دورے سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ شاید بھارت اب اس سمندر میں مستقل طور پر بحری افواج کی ایک ٹکڑی کو تعینات کرنے والا ہے، جو اس کے بحری جہازوں کو اسرائیل اور یونان کی بندر گاہوں کے درمیان سفر طے کرتے ہوئے حفاظت فراہم کریں گے۔ دو سال پہلے، قبل جب ترکیہ- آذربائیجان اور پاکستان نے سہ فریقی دفاعی تعاون کے ایک معاہدہ کا اعلان کیا تھا، تو بھارت میں دفاعی امور کے ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اس اتحاد کا توڑ کرنے کیلئے بھارت کو یونان، اسرائیل اور آرمینیاکے ساتھ ایک گٹھ جوڑ کرنا چاہئے۔ نگورنو کاراباخ کی جنگ کے دوران بھارت نے آرمینیا ء کو آذربائجان کے خلاف جنگ میں ہتھیار بھی فراہم کئے تھے۔ اس جنگ میں آرمینیاء کو قطعی شکست سے دوچار ہوکر نگورنو کاراباخ کا وسیع علاقہ آذربائیجان کے حوالے کرنا پڑا۔ مگر جلد ہی ان ماہرین پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسرائیل اور آرمینیاء نظریاتی اور تاریخی مناقشات کی وجہ سے کسی ایک اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ دوسری طرف اسرائیل آذربائیجان کا حلیف بھی ہے۔ اسلئے بعد میں آرمینیاء کو چھوڑ کر یونان، یونانی قبرص اور اسرائیل کے ساتھ ایک محور بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ کیونکہ ایک تو اس دوران ترکیہ نے ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے سے باز رکھا، پھر 5اگست 2019 کوکشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی اور اسی دوران بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر بھی آواز اٹھائی ، اسلئے کچھ باز پرس تو ہونے ہی والی تھی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جی۔20کے سربراہی اجلاس کے لیے بھارت جا رہے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوںنیٹوکے رکن ممالک ہیں، مگر یہ کئی دہائیوں سے مختلف دوطرفہ مسائل پر تنازعات کا شکار رہے ہیں، جن میں سمندری سرحدوں کی حدود کے تنازعات، اپنے براعظمی شیلفوں کے دعوے اور طویل عرصے سے جاری قبرص تنازعہ شامل بھی ہے ۔ گزشتہ 50 سالوں میں کم از کم تین بار یہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔مودی کے دورے سے قبل، بھارتی فضائیہ اور بحریہ نے یونان میں اور پھر بحیرہ روم میں مشقیں کرکے خطے میں اپنی موجودگی درج کروائی۔ دو نوں فریقوں کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ کا ایک طریقہ کار طویل عرصے سے موجود ہے۔ یہ 40 برس میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اندرا گاندھی نے 1983 میں یونان کا دورہ کیا تھا۔ایتھنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ماہر آئیونس کوٹولاس کے مطابق بھارت چونکہ معاشی طاقت بننے کا خواہاں ہے، اس لئے وہ یورپ جانے والی سمندری گذرگاہوں پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے یا کم از کم ان کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کے ا سٹریٹجک مفادات مغرب کی طرف بحر ہند کے علاقے سے مشرقی بحیرہ روم تک پھیلے ہوئے ہیں، جہاں ایک سرے پر یونان، تو دوسرے سرے پر اسرائیل اس کے روایتی حلیف ہیں۔ اگر بھارت کے پاس دنیا کی مضبوط زمینی فوج ہے، تو یونان کے پاس دنیا کی 16ویں مضبوط فضائیہ ہے۔ یورپی یونین میں اس کی فضائیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ایک بڑا اور مضبوط بحری بیڑا بھی ہے۔ سابق بھارتی سفارت کار انیل تریگنایت کے مطابق یونان بحیرہ روم کی طاقت ہونے کی وجہ سے بھارت کے مفادات میں فٹ بیٹھتا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت ایک ملٹی موڈل کوریڈور تیار کرنے پر غور کر رہا ہے ۔ اس میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سعودی عرب اور اردن کے راستے ایک ریل نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے، جو بحیرہ روم میں اسرائیلی بندرگاہ حیفہ سے منسلک ہوگی۔ اس کے بعدبحری جہازوں کے ذریعے اس کوریڈور کو یونان کی بندرگاہ پیریوس سے جوڑا جائیگا۔ پچھلے سال ہی مودی کے حلیف کاروباری گروپ اڈانی نے حیفہ کی بندر گاہ کو 1.2 بلین ڈالرکی خطیر رقم ادا کرکے خریدا۔ اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے بحیرہ روم کی اس بندر گاہ کی اسکائی لائن کو تبدیل کرنے کا عزم کا اظہار کیا۔ پچھلے چھ سالوں میں، اڈانی گروپ نے ایلبٹ سسٹمز، اسرائیل ویپن سسٹمز، اور اسرائیل انوویشن اتھارٹی جیسی کمپنیوں کے ساتھ کئی اہم شراکت داریاں کی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ مودی کے یونان کے دورہ کا مقصد ہی پیریوس بندر گاہ کو اڈانی کیلئے حاصل کروانا تھا۔ یہ منصوبہ نہ صرف بھارت کو ایران میں چابہار کی بندرگاہ کا متبادل فراہم کرے گا بلکہ بھارت، اسرائیل اور یونان کے درمیان تعاون کو بڑھاوا دیکر ترکیہ کیلئے مشکلات پیدا کرکے اس کی صلاحیتوں کو محدود کردیگا۔ یونان بحیرہ روم میں اپنے جزائر کیلیے 1982 کے کنونشن آن دی لا آف دی سی (UNCLOS) کا حوالہ دیتے ہوئے اس سمندر کے بڑے حصہ کو اپنا اقتصادی زون قرار دیتا ہے۔۔ UNCLOS کے تحت، ایک خودمختار ریاست کو اپنے ساحل سے 200 ناٹیکل میل تک سمندری وسائل کی تلاش اور استحصال کے حوالے سے خصوصی حقوق حاصل ہیں۔ تاہم، کنونشن کے رہنما اصولوں کے تحت ممالک کو یہ فاصلہ اپنے کسی پرنسپل جزیرہ یا اپنے ملک کے ساحل سے ماپنا چاہئے۔ 1919 سے 1923 تک جاری رہنے والی ترکیہ کی جنگ آزادی میں یونانی افواج کو ترک ا فوج نے جب شکست دیکر اپنی سرحدوں کا تعین کیا، تو اس وقت سرحدوں کے قریب جزیروں کی ملکیت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اب ایک یونانی جزیرہ مئیس ترکیہ کے جنوبی ساحل سے بس دو کلومیٹر کی دوری پر ہے اور یہ یونان کے ساحل سے 570 کلومیٹر دور ہے۔ اگر اب اس جزیرہ سے یونان کے اقتصادی زون کو ماپا جائے، تو ترکیہ کے پاس سمندری حدود ہی نہیں رہتی ہیں۔