نرم مزاج سمجھے جانے والے انوارالحق کاکڑ صاحب کا بطور نگراں وزیر اعظم انتخاب سب کے لئے حیران کن تھا۔ اسے صحیح معنوں میں سرپرائز کہا جاسکتا ہے اور انہوں نے بھی اس سرپرائز کی خوب حفاظت کی۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ پھر انہوں نے حلف اٹھاتے ہوئے بھی سرپرائز دیا ۔گمان تھا کہ بلوچستان کا یہ کاکڑزادہ شیروانی زیب تن کرکے حلف لے گا جو ہماری ثقافتی تہذیبی پہچان بھی ہے لیکن انہوں نے یہاں بھی کوٹ پتلون اور کالرتلے ریشمی ٹائی کی نفاست سے گر ہ لگا کر سرپرائز دیالیکن میں کسی اور سرپرائزکا منتظر تھا جس کی مجھے موہوم سی امید تھی جونہ رہی۔ ہر ’’تبدیلی ‘‘ کے وقت یہ امید بارشوں کے بعد اگنے والی خودرو کھمبی کی طرح دل کے نہاں خانے میں آپ ہی جگہ بنالیتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بے شکن خوبصورت لباس میں وزیر اعظم صاحب جچ رہے تھے، گلے سے جھولتی ریشمی ٹائی،میچنگ کے موزے اور لش لش چمکتے جوتے بتا رہے ہیں کہ گھر سے صدر مملکت تک پہنچنے میں ان کے جوتوں کو کہیں گرد لگی اور نہ ہی گرمی نے مزاج پرسی کی، ان دنوں اسلام آباد کا موسم نہائت حبس زدہ ہے۔ جوائیر کنڈیشنر کی عیاشی نہیں کرسکتے تو وہ ذرا پنکھے کے نیچے سے ہل کر دیکھیں لباس پسینے میں تربتر ہوجائے گا۔ میںانہیں حلف لیتا دیکھ کر سوچنے لگا اس بڑے سے ہال کو یخ بستہ اور خوشگوار رکھنے کے لئے ہمارے خون پسینے کی کمائی سے دیئے گئے ٹیکسوں سے کتنے ائیر کنڈیشنر چل رہے ہوں گے اور کتنی بجلی صرف ہورہی ہوگی۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ گھر میں ہوں تو ایک ایک کمرے میں جھانکتے پھرتے ہیں کہ غیر ضروری طور پر پنکھا تو نہیں چل رہا؟ یار دوستوں نے بتایا تھاکہ کاکڑ صاحب مڈل کلاس آدمی رہے ہیں ۔یقیننا رہے ہوں گے لیکن ان کا لائف اسٹائل تو ہمارے جیسا نہیں۔ ہم تو وہ ہیں جو پیٹ کی بھوک مارنے کے لئے اپنی کم سن بیٹیوں کو غیروں کے گھر پونچھے لگانے ،جھڑکیاں کھانے اور مارپیٹ کے لئے چھوڑ آتے ہیں ۔ ہم تورات کی خشک روٹی صبح پانی میں بھگو کر صبر شکر سے کھانے والے ہیں۔ وہ ہم جیسے کہاں سے ہوئے اور اگر ہمارے جیسے تھے بھی تو اب ان کی گاڑی پر جھنڈا لگ گیا ہے ۔نگراں کے سابقے کے ساتھ سہی وہ ایک ایٹمی ملک کے وزیراعظم تو ہیں ناں۔ لیکن سرکار وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ یہ ایٹمی ملک اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے ،مہنگائی نے عوام کی مشکیں کس رکھی ہیں، ڈالر ٹرپل سنچری عبور کر چکا ہے ؟ پٹرول ڈیزل بھی سمجھیں فی ڈالر کا لٹر ہو نے کو ہے، ہم پر قرضوں کا صرف سود ہی بجٹ کی مجموعی رقم سے نصف سے زیادہ کا ہوچکا ہے ، ہم ابھی چند ہفتے پہلے ہی نادہندگی سے بمشکل بچے ہیں ،سابق وزیر اعظم اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف سے کس مشکل سے یہ رقم نکلوائی اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا لیکن کیا یہ بچت دائمی ہے ! کاکڑ صاحب کو موقع ملا تھا کہ وہ اس مشکل وقت کے سوکھے میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے، بے شک انگریزی لباس پہنتے لیکن عام سی گاڑی میں ایوان صدر پہنچتے ۔کھلے پنڈال میں پنکھے لگا کر حلف لیتے اور قوم کو سادگی اور بچت کا پیغام دے کر مثال بن جاتے ۔جب وزیر اعظم عام سی گاڑی میں سوار ہوتا تو کس سیکرٹری اور وزیر کی مجال کہ وہ چار ہزار سی سی کی لینڈکروزر میں گردن اکڑا ئے پھرتا! یادش بخیر ملک معراج خالد بھی ان کی طرح انگریزی لباس کے دلدادہ تھے ،وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے اور نگراں وزیر اعظم بھی ،ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو انہوں نے مصطفیٰ کھر کو گورنر پنجاب اور ملک صاحب کو کچھ عرصے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب لگا دیا۔ وہ سادہ مزاج درویش صفت انسان تھے۔ ایک بار ضیاء شاہد مرحوم ان سے ملنے وزیراعلیٰ ہاؤس گئے۔ موسم گرمی کا تھا انہوں نے کہا کہ ٹھنڈا پانی تو پلوائیں، وزیراعلیٰ صاحب یہ سن کر خود اٹھ کھڑے ہوگئے ضیاء شاہد مرحوم انہیں روکتے رہ گئے کہ کسی ملازم سے کہہ دیں آپ کیوں زحمت کرتے ہیں اور پھر ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے دوسرے کمرے میں پہنچ گئے جہاں ایک بڑا ساریفریجریٹر رکھاتھا۔ ملک صاحب نے ریفریجریٹر کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور چیخ کر الٹ پڑے ضیاء شاہد کہتے ہیں میں پیچھے نہ ہوتا تو وہ ریفریجریٹر سے لگنے والے کرنٹ سے زمین پر پڑے ہوتے، وہ کسی کو کیا ڈانٹتے۔ ضیاء شاہد نے ہی ملک صاحب کی چیخ پر آنے والے ملازموں کو شرم دلائی، ڈانٹا۔یہی ملک معراج خالد مرحوم بعد میں نگراں وزیر اعظم بھی بنے لیکن ان کے معمولات میں فرق نہ آیا اکثر گاڑی چلاتے ہوئے نکل پڑتے۔ انہیں پروٹوکول سے اتنی ہی چڑ تھی جتنی ہمیں چاہ ہے۔ ایک بار نگراں وزیر اعظم شاہراہ قائد اعظم لاہور میں بنا پروٹوکول ڈرائیو کرتے ہوئے ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ ملک صاحب بلا کے سگریٹ نوش تھے کچھ دیر تو سگریٹ پھونکتے رہے پھر کسی سے پوچھا کہ ماجرہ کیا ہے۔ انکشاف ہوا کہ گورنر صاحب خواجہ احمد طارق رحیم نے گزرنا ہے جس کی وجہ سے پروٹوکول لگا ہوا ہے ۔سڑکیں بند ہیں ۔گورنر صاحب کی سواری چلی جائے تو روڈ کھلے گی۔ یہ سن کر نگراں وزیر اعظم کو شرارت سوجھی اور انہوں نے گورنر پنجاب سے رابطہ کرکے پیغام پہنچوایا کہ گورنر صاحب جلدی سے گزر جائیں آپکی وجہ سے میں ٹریفک میں پھنسا ہوں ۔ آج ہمیں ریفریجریٹر سے کرنٹ کھا نے والی ایسی ہی درویش صفت قیادت اور ٹریفک جام میں پھنسنے والے وزیر اعظم کی ضرورت ہے ورنہ تنزلی کے سفر میں ہم ڈھلان سے لڑھکتے چلے جائیں گے۔ قرض کی بارودی سرنگیں ایسے صاف نہ ہوں گی، وسائل بڑھانے اور خرچ گھٹانے ہوںگے ۔راولپنڈی اور اسلام آباد میں صاحب لوگوں کو ائیر کنڈیشنر بند اور دفاتر کی کھڑکیاں کھولنی ہوں گی۔ لگژریزکو حرام قرار دینا ہوگا ۔جس دن یہ کھڑکیاں کھلیں ہماری اس سودکے چنگل سے نکلنے کی راہیں بھی کھل جائیں گی ورنہ ۔۔۔!