کالم بھیجنے کی تیاری کر رہا تھا کہ کرائسٹ چرچ ،نیوزی لینڈ کے سانحے کی اطلاع آگئی ۔ پہلے مجمل خبریں اور پھر مفصل ۔پھر ویڈیوز وصول ہونے لگیں ۔ایسی ویڈیوزجنہیں دیکھنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے ۔اس سفاک کا دل گردہ دیکھیں جس نے نہ صرف نہتے ، پر امن نمازیوں کو جن سے اس کا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا، نہ صرف فائرنگ سے شہید کرڈالا بلکہ اپنے ہیلمٹ میں نصب کیمرے سے اس فلم کو براہ راست نشر کرتا رہا ۔پہلے ایک مسجد پر حملے کی خبر آئی پھر علم ہوا کہ نہیں مسجدیں بھی دو ہیں اور حملہ آور بھی کئی ہیں ۔ آخری خبروں تک 50نمازی شہید اور 20 سے زیادہ زخمی ہیں ۔ان دکھ بھری خبروں میں واحد تسلی کی بات یہ تھی کہ یہ دہشت گرد نہ مسلمان تھے نہ پاکستان سے ان کا کوئی تعلق تھا۔البتہ دو پاکستانی بھی شہید ہوئے ہیں ۔ یہ بھی خوش قسمتی کی بات ہے کہ نیوزی لینڈ کے دورے پربنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم چند لمحوں کے فرق سے اس سانحے سے بال بال بچی ۔بتایا جارہا ہے کہ ایک حملہ آور آسٹریلین ہے اور وہ ان ملکوں میںامیگریشن پالیسیوں کے خلاف ہے۔یہ اصل بات کو چھپانے کی کوشش ہے اور اسے سفید فام نسل پرست کہنا بھی حقیقت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا ۔ یہ سیدھی سیدھی مذہبی دہشت گردی ہے جو اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کی بنیاد پرطویل منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہے ۔ دہشت گرد قاتل کی رائفل پران صلیبی جنگجوؤں کے نام لکھے ہیں جنہوںنے کبھی نہ کبھی مسلمانوں کو قتل کیا ہے ۔ ویانا1683ء کا سنہ درج کیا گیا ہے جو مسلمان ترکوں اور عیسائی یورپیوں کے درمیان شہر کے محاصرے کا سال ہے ۔ کیا ہم پھر بھی اسے سفید فام نسل پرست کہہ سکتے ہیں ؟ آسٹریلوی وہ قوم ہیں جنہوں نے اس بر اعظم کے اصل باشندوں ابور ی جینیز (Aborigines) کا، جو دنیا بھر میں کسی کو نقصان پہنچانے کی قدرت ہی نہیں رکھتے تھے، اس بے رحمی سے قتل عام کیا تھا کہ ان کا وجود ہی ختم ہوکر رہ گیا ۔1788ء میں جب یورپین آسٹریلیا پہنچے تو وہاں لاکھوں مقامی باشندے موجود تھے۔ان کا قتل عام کیا گیا اور ان میں مرد عورتیں بچے سب شامل تھے ۔ اس سفاکی پر صدیوں کے بعد آسٹریلوی وزیر اعظم نے ندامت کا اظہار کیا تھااور ابورجینیز سے معافی مانگی تھی ۔ آسٹریلینز قوم وہ ہے جو باربرداری اور مزدوری کے لیے مکران ، بلوچستان اور سندھ سے بظاہر مزدوروں لیکن در حقیقت غلاموں کے جہاز کے جہاز بھر کے آسٹریلیا لے گئی تھی ۔یہ سب مسلمان تھے اورانہیں وہ خان کے نام سے پکارتے تھے اور آج تک آسٹریلیا میں ’’ گھان ٹاؤنز ‘‘کے نام سے وہ بستیاں موجود ہیں جو ان مشقتیوں نے مر مر کر بسائی تھیں۔ان سب شاندار شہروں کی بنیاد میں خان کا خون ہے ۔ جب تک ان مزدوروں کی ضرورت رہی ، ان سے کام لیا جاتا رہا اور جب ضرورت ختم ہوگئی تو یہ نسلیں بھی یا گم ہوگئیں یا ختم ہوگئیں۔ اور اب ان آقاؤں کی نسلوں سے وہ قوم جنم لے رہی ہے جنہیں اس بات پر دکھ ہے کہ مسلمان اس بر اعظم میں یا نیوزی لینڈ میں کیوں بس رہے ہیں ۔تارکین وطن آسٹریلیا کو اپنا وطن کیوں بنا رہے ہیں ۔ہر نئی زمین پر پہنچنے ،پھلنے پھولنے اور خوش حال رہنے کا تو استحقاق صرف ان کا تھا۔گندمی اور کالی بے اختیار نسل کو آباد ہونے کا اختیار کیوں دیا گیا ۔ 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ (Brenton Tarrent)نامی قاتل نے کہا ہے کہ وہ دو سال سے اس کی پلاننگ کر رہا تھا اس نے کہا کہ میں نے سٹاک ہوم سویڈن میں ہونے والے قتل کا بدلہ لیا ہے ۔خاص طور پر ایک گیارہ سالہ لڑکی ایبا (Ebba Akerlund)کا ذکر کیا ہے ۔برینٹن ٹیرنٹ ناردرن نیوساؤتھ ویلز کے شہر گریفٹن میں بگ ریور نامی جم میں ٹرینر رہا ہے ۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی خاتون مس گرےMs Gray) (نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ برینٹن کو اسلحے میں خاص دل چسپی تھی ۔ وہ ایک متوسط طبقے کے گھرانے کا فرد تھا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیر و سیاحت بھی کرتا رہا ہے ۔واقعے کے بعد پولیس کو قریب کی گاڑی سے دو مہلک بم بھی ملے یعنی حملہ آور صرف خودکار رائفلوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ صرف ان دو مساجد پر ۔ ان کامزید دہشت گردی کا ارادہ بھی تھا۔ یہ واقعہ نا انصافی ، تعصب اور منافقت سے بھری اس دنیا میں دنیا بھر سے ،خاص طور پر ترقی یافتہ اور غیر مسلم ممالک سے کچھ سوال پوچھتا ہے ۔بظاہر یہ سب دہشت گرد عیسائی عقیدوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔انصاف کا تقاضا تو پھر یہ ہونا چاہیے کہ وہ تمام اقدامات جو صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں وہ یہاں بھی لاگو ہوں۔اس کی بنیاد پر عیسائی مذہب پر دہشت گرد کا لیبل لگ جانا چاہیے؟ آسٹریلیا کو ایک دہشت گرد ملک قرار دے کر اسے ایف اے ٹی ایف لسٹ میں شامل کردینا چاہیے ۔؟ اس پر پابندیاں عائد کردینی چاہئیں اور آسٹریلوی باشندوں کا داخلہ ہر ملک میں الگ چیکنگ اور الگ سکیورٹی نظام کے تحت کردینا چاہیے ؟جن سکولوں ، جن کالجوں سے یہ دہشت گرد پڑھ کر نکلے ہیں ان کے نصاب کو چیک کرنا چاہیے کہ انہیں دہشت گردی کا کیا نصاب پڑھایا جاتا ہے ؟جو ان کا حلقہ احباب تھا،ان سب کو سہولت کار قرار دے کر پکڑ لینا چاہیے؟ پاکستان آج تک سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کو بھگت رہا ہے ۔اگرچہ اس میں بھی سب کھلاڑی محفوظ رہے تھے ۔ نیوزی لینڈ میں بھی تمام ملکوں کے کھیلوں کی ٹیموں کا جانا بند کردینا چاہیے ۔و علی ھذا القیاس۔ ان گنت فہرست ہے سوالوں کی ۔لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔دماغی فتور ،نفسیاتی مریض اور حالات کے جبر کا شکار قرار دے کر ان سب دہشت گردوں کو بہترین سہولتوں والی جیلوں اور آسائشوں بھرے ہسپتالوںمیں چند سال کے لیے ڈال دیا جائے گا۔انگشت نمائی صرف غریب ممالک اور مسلم ممالک کی طرف ہوتی رہے گی ۔ ابھی سے ان تمام دہشت گردوں کا دفاع شروع کردیا گیا ہے ۔نفسیاتی عارضوں کے ماہرین اور حالات کے جبر پر آنسو بہانے والے کسی شخص کے دل میں انسانیت کی رمق نہیں جاگتی جب وہ دس گیارہ سال کے فلسطینی بچوں کو اپنی آبائی زمین کے لیے اسرائیلی ٹینکوں کو پتھر مارتے دیکھتے ہیں ۔یا غلیلوں سے مسلح کشمیری نوجوانوں کو اپنے حق کے لیے بکتر بند گاڑیوں کے سامنے کھڑے دیکھتے ہیں ۔ یا دبلے پتلے نحیف و نزار روہنگیا مسلمانوں کو اپنی زمین کے لیے روتے بلکتے دیکھتے ہیں ۔ یہ کیسی دنیا ہے جہاںعیسائی مطالبے پرانڈونیشیا میں مشرقی تیمور کا فیصلہ ہوسکتا ہے ۔جنوبی سوڈان کے آزادی کے مطالبے پر سوڈان کو آسانی سے دو ٹکڑے کیا جاسکتا ہے ۔ مشرقی پاکستان کے بین الاقومی تسلیم شدہ صوبے کو کھلی بھارتی دہشت گردی اور جارحیت کے ذریعے بنگلہ دیش بنتے دیکھا جاسکتا ہے ۔لیکن فلسطینیوں، کشمیریوں، روہنگیا اور دیگر مسلمان یا غریب حق طلب کرنے والوں کو ان کا حق نہیں دیا جاسکتا ۔ کوئی ایک مسلمان ملک یا علاقہ بتا دیں جہاں انصاف کے مطابق مسلمان کا جائز حق آسانی سے دے دیا گیا ہو۔ مسلسل ٹکرز چل رہے ہیں ، بیان آرہے ہیںکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ہر ایسے چھوٹے بڑے سانحے کے بعد یہ تکرار شروع ہوجاتی ہے۔ دہرا دہر اکر اور سن سن کر تھک گئے بخدا۔اتنا تھک گئے کہ اب خیال ہوتا ہے کہ یہ محض مفروضہ ہے ۔دہشت گردوں کا ایک مذہب ہوتا ہے ۔ آپ سچ سچ اپنے دل کی بات بتائیے ۔کیا واقعی دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ؟