اگر گاڑی میں کوئی بڑی فنی خرابی نہ ہو محض بیٹری کمزور ہو تو دھکا لگانے سے گاڑی نہ صرف اسٹارٹ ہو جاتی ہے بلکہ فراٹے بھرنے لگتی ہے ہمارے اردگرد کئی بڑے چھوٹے ممالک کے حالات صدیوں میں نہیں دیکھتے دیکھتے برسوں میں بدلے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان یقینا بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پرنس نے پاکستان میں سرکاری و پرائیویٹ سعودی سیکٹر کی طرف سے 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیاہے۔ جن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی ان میں توانائی ‘ ریفائنری ‘ معدنی وسائل اور بجلی کی پیداوار وغیرہ شامل ہیں۔یہ سارے وہ شعبے ہیں کہ جن میں بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہم برسوں سے دیکھ رہے تھے۔ اپنے معاشی سفر کے اہم موڑ پر ہمیں دو تین باتیں سرکاری و عوامی سطح پر بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ پہلی بات تو یہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی یہ نہج کسی موجودہ پاکستانی شخصیت کی کرشمہ سازی نہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تاریخ گزشتہ کئی عشروںپر پھیلی ہوئی ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد باہمی اعتماد اور تعاون کا ایک مثالی تسلسل ہے کہ جس کی نظیر کم کم ہی ملتی ہے۔ ہمیں ان حالات کو بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ سعودی عرب امریکہ کا قریبی اتحادی ہے مگر اب کچھ مدت سے دونوں ممالک کے درمیان تنائو سعودی صحافی عدنان خشوگی اور یمن کے حوالے سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تنائو امریکی صدر اور وہاں کی سینیٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے سعودی عرب کے بارے میں اپنے اختلافات کی بنا پر ہے۔ یہی تنائو سعودی عرب کی سرمایہ کاری پالیسی میں تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ چند برس قبل جدہ میں ایک سعودی شہزادے کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کے روشن امکانات کے سلسلے میں تفصیلی ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں سعودی خاندان اور سعودی عرب کے دیگر امرا کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری امریکہ میں کرواتا ہوں۔ اب اگر سعودی عرب نے سرمایہ کاری کے لئے مغرب کے بجائے مشرق کا رخ کیا ہے اور پاکستان کے علاوہ انڈیا ‘ چین‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا کی طرف متوجہ ہوا ہے تو اس کا سبب یہ خیال بھی ہو گا کہ اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ رکھے جائیں۔ یہ حقیقت بھی ہماری نظر میں رہنی چاہیے کہ آج سے نہیں 1970ء کی دہائی سے ارض حرمین شریفین کے لئے پاکستان نے سعودی عرب کو یقین دہائی کرا رکھی ہے کہ اگر خدانخواستہ کبھی سعودی عرب کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اپنے کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ آج حکومت کے کچھ وزراء پاکستانی پارلیمنٹ میں یمن میں پاکستانی افواج بھجوانے کے سلسلے میں منظور ہونے والی 2015ء کی قرار داد کا دوش اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو دیتے ہیں حالانکہ عرب ممالک کے داخلی و علاقائی معاملات میں عدم مداخلت دستور پاکستان کا تقاضا ہے۔ اس وقت یمن میں پاکستانی فوج بھیجنے کے بارے میں جو کنفیوژن پیدا ہوا تھا اس پر سب سے زیادہ احتجاج پی ٹی آئی نے کیا تھا۔ اس احتجاج کے بعد ہی یہ قرار داد منظور ہوئی تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی خوش حالی کے لئے دو چیزوں کا ہونا ازحد ضروری ہے ایک داخلی امن و استحکام اور دوسرا وژن جہاں تک موجودہ حکمرانوں کا تعلق ہے تو ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں کہ جنہیں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی نیک نیتی پر شبہ نہیں مگر حکومت کے وژن کے بارے میں ہمیں شدید نوعیت کے تحفظات ہیں۔ عنان اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے یونیورسٹی میں بدل دینے کا فیصلہ کر لیا مگر عرب امارات کے ولی عہد آئے اور اب سعودی عرب کے ولی عہد آئے تو ان کی ضیافت کا اہتمام وزیر اعظم ہائوس میں ہی کیا گیا۔ اپنی انتخابی مہم میں گیس اور پٹرول سستا کرنے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کی خوش خبری سنائی گئی۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ چاہے سپریم کورٹ کے حکم پر گھر بنانے کے بجائے گرائے گئے اور نوکریوں کی دور دور تک کوئی خبر نہیں اور ہاں اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں لانے کے بارے میں بھی ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے برسر اقتدار آ کر تقریباً تمام ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا ہے۔ میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے سارے کام بند پڑے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران عمران خان شور مچاتے رہے کہ خودکشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ انہوں نے بارہا یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ کبھی بھیک مانگنے دوستوں کے دروازوں پر نہیں جائیں گے مگر یہ سارے کام انہوں نے کئے۔ عمران خان پہلی حکومتوں پر تنقید کرتے رہے کہ وہ قرضے لیتی تھیں اب اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ماضی کے حکمرانوں نے 33 ہزار 238ارب قرضہ لیا ہے۔ اس بھاری رقم میں ملکی قرضہ 17 ہزار 535ارب روپے اور غیر ملکی قرضہ 12ہزار 785 ارب روپے ہے۔ معاشی قانونی کے تحت زیادہ سے زیادہ قرضہ قومی پیداوار کے 60 فیصد لیا جا سکتا ہے مگر موجودہ حکومت جی ڈی پی کے 66فیصد تک قرضہ لے چکی ہے جو بہت بڑے معاشی خطرے کا نشان ہے۔ اس سارے تضاد کو واضح کرنے کا مقصد حکومت کو نشانہ تنقید بنانا نہیں بلکہ اسے یہ باور کرانا مقصود ہے کہ خیالی دنیا اور عملی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اب اگر اسد عمر جیسے ’’ماہرین اقتصادیات‘‘ یہ کہیں کہ ہمیں اقتدار میں آنے سے پہلے ان حقائق کا ادراک نہ تھا تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے نئے حکیم بھی دراصل نیم حکیم ہی ہیں۔ دیر آید درست آید کے مصداق عمران خان اب بھی اس’’بھول‘‘ کا اعتراف کر لیں تو آگے کا سفر آسان ہوجائے گا۔ سعودی عرب کی سرمایہ کاری عوام کے لئے کوئی فوری ریلیف کا باعث نہیں ہو گی۔ ان کاموں کی فزیبلیٹی بنے گی۔ پھر اس کی سٹڈی ہو گی پھر ان منصوبوں کو فائنل کیا جائے گا۔ سی پیک اور سعودی سرمایہ کاری یقینا پاکستان میں ایک عظیم معاشی انقلاب لا سکتی ہے مگر اس کے لئے داخلی استحکام شرط اول اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کا تعاون باہمی شرط دوم ہے۔ اگر عمران خان یہ دونوں شرطیں پورا کرنے پر آمادہ ہوں تو یقینا ہمارے حالات بدلیں گے اور بدحالی خوشحالی میں تبدیل ہو جائے گی۔