جمعیت علمائے اسلام ف سے اس ناچیزکابڑا پرانا تعلق رہا ہے۔اپنی زندگی کے کم وبیش سولہ سترہ برس اس جماعت کے جلسوں، جلوسوں اورانتخابی مہمات میں لٹادیئے ۔الحمدللہ ،اس پورے عرصے میںاس جماعت کی جے ٹی آئی نامی طلباء تنظیم میں کسی عہدے کی مانگ کو ضروری سمجھااور نہ ہی بالائی سطح پر مجلس شوریٰ و عاملہ کا رکن بننے کیلئے زور ِبازو آزمایا۔جماعت کے اندر کُبار اور شیوخ حضرات کی عزت اپنی جگہ لیکن اُن سے ذاتی مفادات کی خاطر براہ راست تعلق استوارکرنے کی ذلت بھی کبھی گوارا نہیں کی۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ جماعت سے اپنی راہیں جداکیے آٹھ دس سال بیت گئے ہیں ۔ کیونکہ امیدوں اور خوش فہمیوںکے وہ سبھی چراغیں بجھ گئیں جو ہم نے اپنے سینوں میںروشن کیے تھے۔تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس جماعت کے قیام کو اب کم وبیش سوسال پورے ہورہے ہیں۔ابتداء میں یہ جمعیت علمائے ہند تھی جس کا قیام نومبر 1919 ء میں عمل میں لایاگیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ پھر ’’اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ اور اس وقت حال یہ ہے کہ بلوچستان میں اس کے بعض ایم پی ایز دو دو وزارتوں کی باریاں لینے کے بعدکروڑ پتی اورارب پتی بن گئے ہیں۔ جس درویش صفت مفتی محمودکووزیراعلیٰ کے عہدے کی جائز تنخواہ قبول کرنابھی پسندنہیں تھی،آج ان کے نام لیوا اوروارث ایک نئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند اور مولانا مفتی محمودکے یہ وارث آج بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ سیکولر اور لادین قوتیں جے یوآئی سے خوف زدہ ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سیکولر قوتوں سے اس جماعت کے رہنماوں کی کیا مراد ہے ؟ اگر توذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی ایک سیکولر پارٹی ہے ، تو وہ کیونکر جمعیت علمائے اسلام سے خوف زدہ ہوگی ؟ جتنا پیپلز پارٹی پٹڑی سے اتر چکی ہے اتناہی جے یو آئی اپنے منشور اور دستور سے منحرف نظر آرہی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعدپیپلزپارٹی دومرتبہ ایک مقتدر قوت کے طور پر ابھرکر سامنے آئی اور دونوں ادوار میں جمہوریت کے نام پر حتی الوسع قومی خزانے کو کھوکھلا کردیا۔جے یو آئی کو ایک مرتبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا ۔بلوچستان میںیہ کئی مرتبہ مخلوط حکومت میں شامل رہی جبکہ مرکز میں بھی پچھلے کئی حکومتوں میں جے یوآئی کے ایم این ایز کو وزارتیں دلوائی گئی ہیں ۔کہیں صوبے میں پوری اور کہیں آدھی حکومت لے اڑنے والے جے یوآئی کے ان وزراء نے اس طویل عرصے میں آخرایسی کونسی بے نظیر کارکردگی پیش کی ہے کہ جس سے سیکولر قوت کے بدن پر لرزہ طاری ہوسکے؟ اسی جماعت کے ایک سرکردہ رہنما سے جب ان کی جماعت میں بدعنوانی کے بارے میں پوچھا گیا تو خود ان کا جواب یہ تھاکہ ’’ ہاں جمعیت میں بھی بدعنوانی ہوررہی ہے البتہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں یہاں کم ہورہی ہے‘‘۔اس کا واضح مطلب یہی لیا جاسکتاہے کہ اس حمام میں اس جماعت کے وزراء صاحبان بھی ڈھکے ہوئے نہیں ہیں ۔موصوف رہنما کے اس اعترافی جملے میں ’’ دوسری جماعتوں ‘‘ سے مراد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی جماعتیں ہی ہوسکتی ہیںجنہیں دودو اور تین تین مرتبہ پورے ملک کی حکمرانی مل چکی ہے ۔یوں اس سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ جے یوآئی کو بھی اگر پی پی پی یا پی ایم ایل ن کی طرح مسند اقتدار نصیب ہوئی تو پھر یہاں بھی ففٹی ففٹی والا معاملہ ہوگا۔دوسرے الفاظ میں ہم اسے حصہ بقدرِ جُثہ والا معاملہ کہا جا سکتا ہے ۔ جے یوآئی سیکولر جماعتوں کو اپنے سے خوف زدہ سمجھ رہی ہے تو کوئی مجھے سمجھا دے کہ ان سیکولر جماعتوں کو خوف کس طرح آئے گی ؟ پی پی پی اور پی ایم ایل ن کی طرح جے یو آئی بھی ایک موروثی جماعت ہی توہے۔جس طرح پیپلز پارٹی پر بھٹو خاندان کی اجارہ داری اور بعدمیں قحط ِ رجال کے باعث بھٹو زرداری خاندان کی بیک وقت اجارہ داری قائم ہے ، مِن وعن جے یو آئی کی قیادت بھی مولانا خاندان کے گردگھومتی رہی ہے ۔ جس طرح مسلم لیگ ن کی قیادت سے میاں نواز شریف منہا ہونے کی صورت میں اُن کا برادر ِ شہبازیا دخترِ مریم اس جماعت کے مطلق العنان قائدین ہونگے، اسی طرح مولانا صاحب کے بھی بعدیہ سلسلہ اسعد محمود اور فلاں محمود کی طرف منتقل ہوگا۔ سوال پیدا نہیں ہوتاہے کہ طاقت کا سرچشمہ عبدالخیل (ڈی آئی خان ) سے بلوچستان اورسندھ کے کسی اہل مولانا کو منتقل ہوسکے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جے یو آئی میں سوائے مولانا محمدخان شیرانی کے کسی نے اس موروثیت کو شورائیت میں بدلنے کا مطالبہ کیاہو۔ بلکہ مولانا محمدخان شیرانی نے بھی اس خاندانی اجارہ داری کے خاتمے کامطالبہ ایک ایسے وقت میں شروع کیا جب بلوچستان کی صوبائی امارت کے مسئلے پر مولانافضل الرحمن سے ان کے اختلافات پیدا ہوئے ۔ اقتدار کے مہ وسال میںجے یوآئی میں ایک بڑی خامی یہ سامنے آئی کہ یہاں میرٹ کی قابل رحم انداز میں دھجیاں اڑائی گئیں۔ایم ایم اے کے پہلے دور میں خیبرپختونخوا میں حکومت ملنے کے ساتھ ساتھ یہاں بلوچستان کی مخلوط حکومت میں بھی اس جماعت کے ایم پی ایز کوکئی اہم وزارتیں ملیں۔ محکمہ صحت اور پی اینڈ ڈی جیسے محکموں میں اس جماعت کے وزراء نے بے شمار بھرتیاں کیں ، لیکن میرٹ کا ایک کڑا نظام وضع کرنے کی بجائے سفارشات اور چاچے ، مامے کی خاطر مدارت کو ملحوظ نظر رکھ کر انصاف کا خوب قتل عام کیا۔ بلاشبہ، ایک زمانے میں کسی سیکولریا قوم پرست جماعت سے ٹوٹے ہوئے لوگ جے یوآئی میں پناہ لینے سے خائف رہتے تھے ۔کیونکہ ان کے سامنے بنیادی رکاوٹ جے یوآئی کی وہ اسلامی منشور تھا جو ہرکسی سے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا تقاضا کرتاتھا۔لیکن اب جب لوگوں کو علم الیقین ہوگیا ہے کہ ایک سیکولرجماعت کے مقابلے میں جے یوآئی کی صفوں میں گھس کر بہتر شکار کھیلا جاسکتاہے ، یوں جو ق درجوق اس میں شامل ہورہے ہیں۔جماعت اسلامی بھی جے یوآئی کی طرح ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے ۔ اس کی بعض پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ ، لیکن کم ازکم موروثیت ، جماعتی بد نظمی اور کسی حدتک بدعنوانی سے تو اپنے آپ کو دور رکھاہے۔ ہاں توکہنایہ مقصود تھاکہ دین کے نام پر دنیوی مفادات سمیٹنے کا یہ کھیل اگر مزید بھی اسی طرح جاری رہا تو خاکم بدہن اس کے عواقب ونتائج ان جماعتوں کے مفاسد سے بھی خطرناک ہونگے جسے ہم نے لبرل اور سیکولر کانام دیاہواہے۔