انتخاب عمران نے جیت لیا اور فتح مندی کی پہلی تقریر (Victory Speech) سے اپنوں اور پرائیوں کے دل بھی اس نے جیت لیے۔ جذبات ، درد اور دانشمندی سے گندھی یہ عمران ہی کی ایک شاندار تقریر نہ تھی ،کہ عرصے بعد جوکسی متوقع پاکستانی وزیرِ اعظم کے لبوں سے نکل کے قوم کے دلوں میں اتر رہی تھی ،بلکہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کی بھی ایک یادگار تقریر تھی ۔فی البدیہہ ، برجستہ ، رواں، مرتب اور پر مغز۔ بدن بولی جس میں معانی بھر رہی تھی اور لفظوں کا انتخاب اور لہجے کا اتار چڑھاؤ مل کے جس میں تاثیر کے جادو جگا رہے تھے۔ تقریر سے ریجھنے والے ویسے ہم نہیں۔ بہت تقریریں ہم سنتے ہیں ، اور سچ تو یہ ہے کہ مذہب ہو کہ کوچۂ سیاست ، تعلیم ہو یا کوئی سا بھی ہمارا ادارۂ تطہیر، ایک زمانے سے سوائے تقریروں کے اور ہم نے سنا ہی کیا ہے ۔ سوائے خالی لفظوں کے ہمارا مقدر ہی کیا ہے؟ اس تقریر میں مگر ،شاید کچھ سوا بھی تھا، شاید کہنے والے کی لیاقت ، دیانت اور درد ننگے لفظوں کو پہناوا پہنا رہے تھے۔تقریر جاری تھی اور تڑپ تڑپ کے یہ احساس جاگ اٹھتا تھاکہ ایسے لفظ سننے اورمعانی میں ڈھلنے کی کتنی صدیوں سے یہ قوم منتظر تھی۔ بنی اسرائیل کا گناہ بڑا سخت تھاکہ ایک پیغمبر کے رو برو خدا کے حکم سے صاف سرتابی کی جسارت وہ کر گزرے تھے، چالیس سال میں ان کی اذیت بھی مگر تمام ہو گئی تھی ، ستر سال سے یہ قوم مگر اعراف کے میدان میں کھڑی اپنے گناہوںکا طوق کاٹ پھینکنے والے مسیحا کے انتظار میں ہے۔ کوئی اذیت سی اذیت اس قوم نے سہی ہے ۔ کون نہیں جانتا ، انتظار کی اذیت عذاب سے بھی شدید تر ہوتی ہے ۔ وہ انتظار بھی قوموں پر اور افراد پر اترتا ہے کہ بلبلا کے لوگ موت مانگ اٹھتے ہیں۔ ستر سال سے اذیت اور بے بسی کے اسی انتظار میں یہ قوم لہوہان کھڑی سسک رہی ہے۔ اور آج پھر ایک نئی تمنا کے ساتھ ، اک نئے شخص کو آزمانے کے مرحلے میں داخل ہو کرامید سے چھلکتے لفظوں سے تسکین کے پیالے یہ بھر رہی تھی۔ جیت سے سرشار یہ کسی لا ابالی شخص کی اولیں پر جوش تقریر نہ تھی ، ہلکی آنچ پر پکے خیالات اور زمینی حقائق سے کشیدکردہ ، اس تقریر کے لفظ لفظ سے صداقت چھلک رہی تھی۔ اپنے الفاظ اور حرکات پر کم ہی عمران کو قابو پاتے دیکھا، اس دن لیکن یہ وہ عمران تھا ہی نہیں، ورلڈ کپ جیتنے کے سمے جو اپنی ٹیم کا ذکر تک کرنا بھول گیا تھااور جلسوں میں جو آکسفورڈ کی اپنی ڈگری کی گاہے نفی کر دیا کرتا تھا۔ کتنی دیر وہ کیمرے کے سامنے چپ چاپ بیٹھا رہا۔ یہاں تک منتظر کیمرہ پرانی فوٹیج تازہ کمنٹری کے ساتھ ٹی وی پر دکھانے لگا۔ شاید گزشتہ کچھ عرصے سے وہ سو نہ سکا تھا۔ظاہر ہے ایک طوفانی انتخابی مہم اور پھر اس کے بعد نتائج کے انتظار کے طویل عمل سے وہ گزرا تھا۔ظالم ہوں یا مظلوم، سیاستدان ہوںیا جرنیل ، آخرش ہم انسان ہی ہوتے ہیں ۔ درد جنھیں محسوس ہوتا ہے ۔ مصیبت میں جو بلک اٹھتے ہیں اور کامیابی سے جو چمک جاتے ہیں۔ متحمل اور منکسر فتحمندی کی سرخی تلے چھائی تکان بھی اس کے چہرے پر صاف پڑھی جاتی تھی۔بالا ٓخر وہ بولا اور اس نے زندگی بھر کے اپنے درد اور ریاضت کی کہانی گنتی کے چند لفظوں میں کہہ ڈالی۔غربت کی چکی میں متواتر پستے اور بے بسی کی دلدل میں دھنسے عوام کے دل کی اس نے بات کی ؎ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے کئی باتیں اس نے کیں ۔ معیشت کو درپیش خطرات کی بات۔اپنے سفاک شکنجوں میں دبا کے کمزوروں کاخون پی جاتے ڈیکولا صفت اداروں کی اصلاح کی بات۔ اندرونی خطرات اور بیرونی چلینجز کی بات۔ ہمسایوں کے درد اور جبر کی بات ۔ اپنوں اور پرائیوں کی پہچان اور تمیز کی بات۔ مدینہ کو اس نے دو بار یاد کیا اور زیادہ لفظ اسی مقدس شہرِ رسولؐ کے لیے برتے جہاں کبھی کائنات کے افضل ترین انسان انسانیت کے لیے بہترین طرزِ زندگی کے نقوش تراش رہے تھے۔ ایران سے تعلق اور سعودیہ کے احسان کی بات بھی ہوئی ۔ اور پھر چائنہ سے سسٹم سیکھنے اور امریکہ سے دوطرفہ فائدے پر محیط تعلقات بنانے کی بات۔ بھارت کے بدترین اسلوب پر کس خوش دلی سے اس نے تبصرہ کیاکہ گویا میں تمھاری کسی فلم کا ولن ہوں، کشمیر مگر وہ نہیںبھولا۔ وہاں کے اور افغانستان کے درد کاگویا اس نے اپنے ہی دل میں گھاؤ محسوس کیا۔ اس نے مدینے کا تذکرہ ہی نہیں کیا، اس کے ایک عمل کی پیروی کی بساط بھر کوشش بھی کی۔ فتح مکہ کے دن سرکار نے بدترین اذیت پہنچانے والوں او ر شہر سے ہجرت کا موجب بن جانے والوں کے لیے بھی ایک اعلان فرمایا تھا،فرمایا تھا، تم سب میری ہر طرح کی گرفت سے آزاد ہو ، میںنے تمھارے سب ستم معاف کیے۔ اس نے بھی کہا، اپنے ہر طرح کے مخالفوں کے تمام دکھ میں نے بھلا دئیے۔ میری ذات نہیں ،میرا مشن اہم ہے۔تعلیم سے دور قوم کے نونہالوں کی بھی اس نے بات کی اور کسانوں کی بات۔ غریب انسانوں کے سمندر میں کھڑے امیروں کے جزیروں کی بھی بات۔ گورنر ہاؤسز کے بہتر استعمال کی بات کی ۔ غریب عوام کے پیسے سے بنے وزیراعظم ہاؤس میں اگر میں جا بسوں تو مجھے شرم آئے گی ، اس نے کہا۔ایسی شرم پہلوں کو جانے کیوں نہ آسکی؟ میں نے اس کا لباس دیکھا ، وہ آج بھی اسی قمیص میں مبتلا تھا، ہمیشہ جو اس کے جسم کو ڈھانپے رہتی ہے۔یعنی ابھی تک اس پر کوئی رنگ نہ چڑھا تھا۔ ابھی تک وہ خواب بننے والا ویسا ہی شخص تھا۔ ابھی تک رومان میں بہتا وہ لفظوں سے دنیائیں تخلیق کر رہا تھا۔ یہاں تک تو ٹھیک ، یہاں تک تو درست ۔ اگرچہ اتنے کو بھی قوم کب سے ترس رہی تھی۔ اب تو یہ قانع قوم اتنا بھی بہت جانتی ہے کہ کوئی قائد اس کے درد کوکم از کم لفظ ہی عطا کر دے، عمل بھلے اس کی آئندہ سات نسلیں بھی نہ کریں۔ اتنا ہی لیکن بہت نہیں ہوتا۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ اقتدار کی جادو نگری اس رومان پرور عمران کو کھا نہ جائے۔یہ عجیب جادو نگری ہے، یہاں بڑے بڑے آہنی جذبوں والے آکے بے بس ہوتے ہم نے دیکھے ہیں۔ لفظ کتنے اچھے ہوتے ہیں لیکن افسوس یہ کتابوں اور تقریروں میں ہی مقید رہتے ہیں۔ انسان اپنی اور دوسرے انسانوں کی تقدیر تب لکھتا ہے ، جب لفظوں کو وہ عمل کر دکھائے۔یہ لیکن آسان کام نہیں ہوتا۔اقتدار کی غلام گردشوں کے ہر موڑ پر ایک بوڑھی ساحرہ ہر اچھی خواہش اور اچھے عمل کو شکار کر لیتی ہے۔ اقتدار کے شجر پر پیلی امر بیل عمل کا خون چوسنے کو موجود ہوتی ہے۔کیا عمران ان سب بوڑھی ساحراؤں سے لڑ سکے گا،؟ کیا وہ اپنے عزم کی طاقت سے ساری امر بیلیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا؟ قوم کی آرزؤں کی طاقت کو کیا عمران اپنی طاقت بنا پائے گا؟ کرہ ارض کی بہترین قوم کو درپیش بدترین حالات کی بیڑیاں کیا وہ کاٹ سکے گا؟ دھڑکتے دل سے پوری قوم یہ سب سوچتی ا سکی تقریر سن رہی تھی۔کیا شک ہے کہ ایک اچھی تقریر عمران نے کی ، ایک اچھی تقریر مگرکبھی آدمی پر بڑی بھاری ذمے داری بھی ڈال دیتی ہے۔ انتخاب عمران نے جیت لیا اور فتحمندی کی پہلی تقریر (Victory Speech) سے اپنوں اور پرائیوں کے دل بھی اس نے بہرحال جیت لیے۔ اصل امتحان کا سامنا لیکن عمران کو اب ہے۔گیم کا یہ وہ آخری لیول ہے ، اکثر لوگ جسے جیت نہیں پاتے ، اکثر لوگ یہیں برباد ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عمران یہ جانتا ہے کہ اصل جیت انتخاب ، عہدے اور اختیار کی جیت نہیں ہوتی۔اصل جیت ذمے داری میں سرخروئی کی جیت ہوتی ہے۔