اور کہیں دور سے قاضی ابو سعد الحریری کی آواز سنائی دیتی ہے ’’حالتِ جنگ میں گھٹیا ترین ہتھیار مرد کے آنسو ہوا کرتے ہیں‘‘ کیا آنسوؤں کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں؟ معاشرے سو جاتے ہیں۔ کبھی تو مدتوں سوئے رہتے ہیں، غلامی کا طوق پہنتے ہیں؛حتیٰ کہ پست سے پست تر ہو جاتے ہیں۔ قومیں جاگ اٹھتی ہیں۔ سچائی، صبر، اور عزم و علم کے بل پر بالیدگی پاتی ہیں؛تاآنکہ عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگتی ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارا اقلیت تادیر اکثریت پہ حکومت نہیں کرتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے؛اگرچہ انہی کے لیے جو تاریخ کے دوام میں ڈوبتے ابھرتے نشیب و فراز سے نتائج اخذ کرنے کے اہل ہوں۔ عباسی سلطنت پر یہ زوال کے دن تھے۔ وسائل اور نعمتوں سے مالا مال لیکن علم اور صداقت سے وہ ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ کوئی دن میں انہیں تاتاری گھوڑوں کے قدموں تلے پامال ہونا تھا۔ اگست 1099ء میں منتصر باللہ کا بغداد تھا۔ خوب سجے ہوئے دیوان میں،کوئی بھی شہنشاہ جس پہ رشک کرتا، امیر المومنین مسند پہ فروکش تھے۔ تب وہ دراز قد آدمی دربار میں داخل ہوا۔ آنے والی صدیوں کو جسے یاد رکھنا تھا۔ اس کا نام ابو سعد الحریری تھا۔ منڈھا ہوا سر اور اس پر سفید پگڑی۔ بوڑھے اور جوان، اسی حال اور حلیے میں درجن بھر اس کے ہم راہی بھی۔ منڈھا ہوا سر سوگ کی علامت تھا! معمول کے آداب بجا لانے کی بجائے وہ تن کر کھڑا تھا اور جب اس نے بات شروع کی تو امرا چونک اٹھے۔ یہ وہ لہجہ نہیں تھا، بارگاہ میں جو اختیار کیا جاتاہے۔ عمائدین نے، جن میں سے ہر ایک کسی شہزادے کی سی تمکنت رکھتا تھا، اسے روکنے کی کوشش کی۔ حقارت کی ایک نگاہ کے سوا ان کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ پھر گونجتی ہوئی آواز میں اس نے یہ کہا: ’’اس پر جمال آسودگی میں تم شادکام کیسے ہو؟‘‘ چمن کے اشجار تلے کھلے غنچوں کی طرح ماحول سے بے نیاز۔ اس وقت جب کہ بلاد شام میں تمہارے بھائیوں اور بہنوں کو گدھ نوچ رہے ہیں۔ پھر ایک خطیب کی طرح، جو منبر پہ براجمان ہو، اس کی آواز بلند ہوتی گئی’’خون بہا ہے خون۔بہو بیٹیاں روند ڈالی گئی ہیں۔ وہ منہ چھپاتی پھر رہی ہیں۔ یہ المناک توہین بہادر عربوں کو گوارا ہے؟ دلاور ایرانیوں کو، جن کی شجاعت کے قصے کہے جاتے ہیں؟‘‘ اب دربار میں سناٹا تھا، درو دیوار تک جیسے گنگ ہوں۔ ایک عام عالم نہیں، وہ دمشق کی اموی مسجد کا خطیب تھا۔ چہاردانگ عالم میں جس کا چرچا رہا کرتا۔ جولائی کے جھلسا دینے والے موسم میں وہ تین ہفتے کا سفر طے کر کے آیا تھا، وہ اور اس کے ہم نفس۔ قاضی ابو سعید الحریری تفصیل بیان کرتا رہا۔ تفصیل ہی نہیں، خونچکاں مناظر کی دل دوزی بھی، حتیٰ کہ چہروں کا رنگ بدلنے لگا، حتیٰ کہ وہ مرجھا گئے، حتیٰ کہ آنکھوں سے آنسو پھوٹ بہے اور ایسے بھی تھے، جو پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ بھرے دربار پر ایک بار پھر الحریری نے حقارت کی نگاہ کی اوریہ کہا ’’حالتِ جنگ میں گھٹیا ترین ہتھیار مرد کے آنسو ہوتے ہیں‘‘بیت المقدس میں صلیبی لشکر کی یہ پہلی یلغار تھی۔ ’’آج تک اہلِ ایمان ایسی اذیت اور تذلیل سے نہیں گزرے۔ ان کے گھر، کھیت اور باغ اجڑ چکے۔ ایک ماہ قبل جمعہ کے روز شعبان کے دوسرے دن فرنگیوں نے بیت المقدس پہ قبضہ کر لیا۔ مردوں، عورتوں اور بچوں میں سے ایک ایک کو انہوں نے قتل کر ڈالا۔ تلواریں لہراتے کفار گھر لوٹ آئے اور مسجدیں ڈھا دیں۔ قتلِ عام کا سلسلہ تمام ہوا تو شہر میں ایک بھی مسلمان زندہ نہ بچا۔ چند ایک کے سوا، جو فرار ہو سکے اور دمشق جا پہنچے‘‘ اپنے ساتھیوں کی طرف اس نے اشارہ کیا۔ باقی تاریخ ہے۔ نور الدین زنگی کی قیادت میں، جہاد کے کئی عشرے؛حتیٰ کہ وہ آدمی دنیا سے اٹھ گیا۔ مسلسل تین راتیں جسے رسول اکرم ؐ کی زیارت کا شرف ملا تھا۔ روضہ ء اطہر کے گرد جس نے سیسہ پلائی دیواریں ڈھالی تھیں کہ عالی مرتبتؐ کا متبرک بدن چرانے کی کوشش ہوئی تھی۔ پھر صلاح الدین اٹھا اور کم کلام آدمی نے اپنے اولین خطابات میں سے ایک میں کہا تھا:تمہیں شرم آنی چاہئیے مسلمانو! اہلِ فرنگ کو دیکھو کہ اپنے باطل عقیدے کی خاطر کس جوش و جذبے سے میدان میں اترتے ہیں۔ کس شجاعت کا مظاہرہ وہ کرتے ہیں۔۔۔اور ہم مسلمان؟اس قدر ہم گر گئے کہ جہاد کا نام تک نہیں لیتے۔ قاضی ابو سعد الحریری کے طوفان برپا کردینے والے خطاب کے بعد منتصر باللہ نے کیا کیا؟ اس عظیم عباسی سلطنت کے فرماں روا نے؟ سات افراد پر مشتمل اس نے ایک مجلسِ شوریٰ بنادی۔ مورخ اس باب میں کیا کہتے ہیں کہ اس مجلس نے کیا کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ کیا آپ کی عرب دنیا، کیا آج کا عالمِ اسلام عباسی سلطنت کی تصویر پیش نہیں کرتا؟ تاتاریوں نے جسے روندا۔ جس میں ایک دن الپ ارسلان کا لشکر داخل ہوا اور فاتح امیر المومنین کی صاحبزادی کو بیاہ لے گیا۔ عرب رسوا ہوئے اور اس قدر رسوا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ بالاخر ترک اٹھے اور ان کی تلوار نے صدیوں عالمِ اسلام کی حفاظت کی۔ ایک صدی پہلے عربوں کو اقتدار واپس ملا، انگریزوں سے ساز باز کر کے جب انہوں نے خلافت سے غداری کا ارتکاب کیا۔ شریفِ مکّہ کو عرب کی سرزمین سونپی گئی تو عالمِ اسلام کے سب سے بڑے مفکر اور شاعر نے یہ کہا یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیمِ بو زر و دلقِ اویس و چادر زہرا اور یہ کہ بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیؐ خاک و خوں میں لوٹتا ہے ترکمانِ سخت کوش نہیں، نہیں،عرب تنہا مجرم نہیں تھے۔ انگریزوں کے ایما پر مکہ مکرمہ سمیت حجاز پر یلغار کرنے والی قیادت ہندوستانی فوج کے ہاتھ میں تھی۔ برصغیر کے مسلمان اس فوج کا ہراول دستہ تھے، اپنی جنگجوئی پہ ہمیشہ سے جنہیں ناز ہے اور ان کے شاعر کو بھی سو پشت سے ہے پیشہ ء آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے سڈنی، پرتھ، انگلینڈ، پیرس اور شکاگو کی طرح متحدہ عرب امارات کے دروبام پر بھی کچھ بینر اسرائیل کے حق میں لہرائے گئے۔’’خوں ریزی کی ذمہ دار حماس ہے‘‘ اہلِ فلسطین کو دھمکی دی گئی کہ ان کی مالی امداد روک دی جائے گی۔ مغرب میں اسرائیل کی حمایت قدرے کم ہوئی ہے، عالمِ عرب میں کچھ بڑھ گئی ہے۔ امریکہ میں صیہونیت کے ہم نوا اب صرف 33فیصد ہیں، فلسطینیوں کے 15فیصد، باقی وہ ہیں، دونوں کو جو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ تاریخ کے چوراہے پر عالمِ اسلام لمبی تان کر سو رہا ہے یا منتصر باللہ کے درباریوں کی طرح ٹسوے بہاتا ہوا۔ اور کہیں دور سے قاضی ابو سعد الحریری کی آواز سنائی دیتی ہے ’’حالتِ جنگ میں گھٹیا ترین ہتھیار مرد کے آنسو ہوا کرتے ہیں‘‘ کیا آنسوؤں کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں؟