6جون 2021ء اتوارکی شام کوکینیڈاکے صوبے انٹاریو کے شہرلندن میں ایک20 سالہ دہشت گرد نے ایک مسلم کنبے پر گاڑی چڑھا دی جس سے چار افراد شہید ہو گئے۔ شہیدہونے والوں میں 46 سالہ فزیوتھراپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی کی طالبہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15 سالہ یمنیٰ سلمان اور اُن کی74 سالہ ضعیف دادی شامل ہیں جبکہ اس کنبے کا صرف ایک زندہ بچ جانے والا9 سالہ بچہ فائز سلمان شدیدزخمی ہوا جو ہسپتال میں داخل ہے ۔ متاثرہ خاندان تقریباً چودہ برس قبل پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آ یا تھا اوراس خاندان کے سربراہ ایک مقامی مسجد کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ وہ چہل قدمی کے لیے باہر نکلے تھے اوریہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔خیال رہے کہ یہ پہلاموقع نہیں کہ جب کینیڈا میں مسلمان دہشت گردوں نشانہ بنے اسے قبل 30جنوری2017ء اتوارکوکینیڈا کے صوبے کیوبیک میں ایک مسجد پر دہشت گردانہ حملے میں 6 نمازی جن کی عمریں35 اور ستر برس کے درمیان تھی شہید جبکہ 8 زخمی ہوئے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا میں2012ء اور 2014ء کے درمیان نسلی یا مذہبی منافرت کی بناء پر کیے جانے والے جرائم کی تعداد میں کچھ کمی تو ہوئی تھی تاہم اسی عرصے میں مسلمانوں کے خلاف ایسے حملوں یا مجرمانہ واقعات کی شرح دوگنا ہو گئی تھی۔ 2010ء میں، پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق کینیڈا میں تقریباً ساڑھے مسلمان آباد ہیں۔ ٹورنٹو میں مسلمانوں کا تناسب 7.5 ہے جبکہ کینیڈاکے صوبے انٹاریو کے شہرلندن میں مسلمانوں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے ۔کینیڈا میں سب سے پہلے اسلام امیر معاویہؓ کے دورمیں پہنچا۔ 8 جون 2021ء منگل کوہاؤس آف کامنز میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم ٹروڈو کا کہنا تھا کہ جب آپ ایک ایسی مسلمان خاتون سے بات کرتے ہیں جو کہ ایک بس سٹاپ پر کھڑی اس فکر میں ہوتی ہے کہ کوئی اس کے سر سے حجاب کھینچے گا یا اس کو نقصان پہنچائے گا تو وہ آپ کو یہی بتائے گی کہ اسلاموفوبیا حقیقت ہے ۔ اگر آپ ان والدین سے بات کریں گے جو اپنے بچوں کو صرف اس خوف سے روایتی لباس نہیں پہننے دیتے کہ انھیں ہراساں کیا جائے گا، وہ آپ کو بتائیں گے کہ نسل پرستی ایک حقیقت ہے۔ اس سے قبل کینیڈا کے وزیراعظم نے یہ بھی پیغام دیا تھا کہ ہم لندن شہر کی مسلم کمیونٹی اور پورے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خاموشی سے پنپنے والی یہ نفرت نقصان دہ اور انتہائی شرمناک ہے۔ اسے ختم ہونا ہو گا۔ لندن کے میئر ایڈ ہولڈر نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہاکہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی قتل عام کی ایک واردات ہے جس کی جڑیں گھٹیا نفرت پر مبنی ہیں۔ یہ نا قابل بیان نفرت اور اسلامو فوبیا پر مبنی حرکت ہے، جس کا جواب انسانیت اور ہمدردی سے دینے کی ضرورت ہے۔ ہولڈر کا کہنا ہے کہ لندن تقریباً چار لاکھ آبادی پر مشتمل شہر ہے جس میں تقریبا 30 سے چالیس ہزار مسلمان آباد ہے اور متاثرین کے احترام میں شہر میں تین دن تک قومی پرچم کو سر نگوں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس سانحے کو مغربی ممالک میں پھیلنے والے اسلاموفوبیاکی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ دہشتگردی کا یہ واقعہ مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا میں اضافے کی جانب اشارہ کرتا ہے اوریہ کہ بین الاقوامی برادری کو اسلاموفوبیا کے خلاف مشترکہ طور پر کارروائی کرنا ہو گی۔کینیڈا کے وزیراعظم کی حقیقت بیانی کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کے لئے قابل اطمینان تو ہے لیکن کاش اگراس حقیقت بیانی کوعملی جامہ پہنانے کے لئے کینیڈین وزیراعظم پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان کے ساتھ عملی طورپرکھڑے ہوکرمغرب میں اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لئے ہمہ تن مصروف عمل رہنے کے لئے ان کاساتھ دیں ۔ واضح رہے عمران خان ہرعالمی فورم سے اپنے خطاب کے دوران مغرب کویہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کے تئیں اپنارویہ درست کریں ۔اس حوالے سے انکے دو خطابات کا شہرہ عام ہے جن میں 27 ستمبر2019ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںبنفس نفیس خطاب جبکہ اسی پلیٹ فارم سے ان کادوسراخطاب25 ستمبر2020ء کو ورچیول تھا۔دونوں مواقع پر عمران خان نے مغرب کو یہ کہتے ہوئے ایک بلیغ اور واضح پیغام دیا کہ’’ ا نتہا پسند اسلام یا معتدل اسلام‘‘ جیسی سرے سے ہی کوئی چیزموجود نہیں ہے ۔ اسلام صرف ایک ہے جو ہمارے نبی محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ۔ بلاشبہ ان دونوں مواقع پرجناب عمران خان نے تک اسلام کا مقدمہ اس جانفشانی،دلسوزی ،خلوص اور صاف گوئی سے اقوام عالم کے سامنے رکھا ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ57 مسلم ممالک کے سربراہ ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوتے رہے لیکن دین اسلام اورشعائر اسلام کے تحفظ کے لئے اس درد مندی اورغیر ت دین کا مظاہرہ نہ کر سکے جس طرح عمران خان نے اسلامو فوبیا کو موضوع بناکر مغربی ممالک کے تضاد کو اجاگر کیا ہے اوران کے دل کی پھانس کوبرہنہ کردیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ (Radicalislam) اور Islamicterrorism) ( ایسی درجنوں اصطلاحات گھڑی گئیں جن کا مقصد مسلمان اور دین اسلام کو عالمی امن کے لئے خطرہ ثابت کرنا تھا۔ اس خطرناک عمل نے دنیا بھرمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو ہوا دی۔ حجاب داڑھی ٹوپی مسجد اور عربی زبان کو نشانہ بنایا گیا۔ مساجد پر حملے ہوئے اور مسلمانوں کے شعائر مقدسہ کی توہین کی جاتی رہی ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا، پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وبا انسانیت کو متحد کرنے کا ایک موقع تھی لیکن بدقسمتی سے قوم پرستی اور بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔