اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کے حصول کیلئے فلسطین میں زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس گریٹ گیم کا حصہ بنے ہوئے ہیں اسرائیل کا یہ مطالبہ ہے کہ غزہ کو خالی کردیا جائے لیکن یہ مطالبہ صرف غزہ تک محدود نہیں، اپنے اس مکروہ ارادے کی تکمیل کیلئے اسرائیل ہر ہتھکنڈا استعمال کررہا ہے۔ غزہ میں اجتماعی قبروں کی کھدائی کا سلسلہ جاری ہے بچے ان قبروں میں کھیل رہے ہیں اور اسرائیل کے فضائی حملوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں انہیں یہ سب کچھ معلوم ہے کہ شاید اگلے ہی لمحہ ان کی تدفین ان اجتماعی قبور میں ہو گی لیکن انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہرطرف بے گورو کفن لاشے بکھرے ہوئے ہیں۔ بے سروسامانی کے عالم میں بھی فلسطینی مجاہدین کے حوصلے بلند ہیں القسام بریگیڈ کے مجاہدکمانڈر ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ'' ہمیں معلوم ہے کہ ہم دنیا کی انتہائی غیر مساوی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ مستقبل میں دنیا کی درسگاہوں میں ہماری جنگی حکمت عملی ہی پڑھائی جائے گی ۔’’انشاء اللہ‘‘محمد عربی ﷺ کے یہ پروانے اسرائیل کے خلاف صف آرا ہیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اس کا مقابلہ کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں جد ید ترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج کو ابھی تک کسی بھی زمینی حملہ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ا سرائیل ایک حکمت عملی کے تحت فضائی حملوں میں شہری آبادی ، ہسپتال اور بازاروں کو نشانہ پنا رہا ہے جبکہ مجاہدین صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ انتقام کی آگ میں اندھا اسرائیل اپنی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے لیکن اسے کسی صورت کامیابی نہیں ہوگی۔ جنگ کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔فلسطینی مجاہدین اور عوام کے حوصلے بلند ہیں وہ کسی صورت جہاد کا راستہ نہیں چھوڑ نے کیلئے تیار نہیں ہر دن گزرنے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں جاری اس جنگ کا دائرہ وسیع بھی ہوتا جارہا ہے۔ عرب تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ جنگ بند ی کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا ، جنگ بندی کیلئے اسرائیل کسی عالمی ادارے یا ملک کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور ابھی تک کسی نے جنگ بندی کی کوئی ''مخلصانہ کوشش'' بھی نہیں کی فریقین میں عدم اعتماد کی فضا برقرار ہے قرائن بتا رہے ہیں کہ جنگ طویل ہو سکتی ہے۔ اسرا ئیل نے اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل کیلئے سفاکی و بربریت اور ظلم وستم کے سابق تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ حماس کی جانب سے مشروط جنگ بندی کی پیشکش کو کمزور ی سمجھا گیا اور اس بارے دیگر ہمدرد ممالک کی تمام تر کاوشوں کا بھی کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ جنگ پہلے سے بھی زیادہ شدت کر چکی ہے ،اس سلسلہ میں انسانی و بنیادی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی بے اعتنائی اور بے حسی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے جنہیں ایک جانور کی زندگی کو لاحق خطرات بارے تمام عالمی قوانین یاد آجاتے ہیں لیکن فلسطینی بچوں کے ساتھ ہونے و الی اسرائیلی درندگی نظر نہیں آرہی۔ خون مسلم اتنا ارزاں ہو جائے گا کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا ۔آج سب نے اپنے ہونٹ سی لئے ہیں کسی کو لب کشائی کی جسارت نہیں ہورہی ۔امریکی پشت پناہی میں اسرائیل روزانہ غزہ پر آگ و بارود کی بارش میں مصروف ہے کسی میں اتنی جرات نہیں کہ اسرائیل کیخلاف آواز اٹھائے۔ تمام عالمی جنگی قوانین کو بھی اسرائیل نے اپنے پائو تلے روند دیا ہے اورثابت کردیا ہے کہ عالمی قوانین صرف اور صرف کمزور کیلئے ہوتے ہیں طاقتور کیلئے کوئی قانون نہیں ہوتا طاقتور کا ہر ایکشن ہی قانون ہوتا ہے۔ آئیے! ذرا اسرائیلی سفاکیت کی ایک جھلک عالمی اداروں کی زبانی جانتے ہیںامور اطفال پر کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اسرائیل فلسطین جنگ بارے چونکا دینے والے حقائق کا انکشاف کیا ہے ایک عالمی ادارے کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے جنگ کے دوران صرف ایک ماہ میں 5000 سے زائدمعصوم فلسطینی بچوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔ اس کی افواج روزانہ166فلسطینی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں ،ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت تلاش تلاش کرکے ایک گھنٹہ میں 6سے زائد فلسطینی بچوںکو لقمہ اجل بنایا جا ر ہا ہے، فلسطینی وزارت صحت کے اعلامیہ کے مطابق اسرائیلی افواج ہر دس منٹ میںایک فلسطینی بچہ کو موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہے ،شدید ز خمی بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو بے یارو مدد گار ہسپتال کے فرش پر پڑے ہوئے اپنی موت کا انتظار کر رہیں۔ ادویات اور ایندھن کے خاتمہ کے بعد انہیں صرف حوصلہ ہی دیا جارہا ہے۔ تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر نسل کشی کی مثال نہیں ملتی، حالیہ روس یوکرائن جنگ کے دوران 18ماہ میں دونوں اطراف کی افواج کے ہاتھوں اتفاقیہ جنگی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں کم ہے جبکہ اسرائیل نے ایک ماہ سارے حساب برابر کر دئیے ہیں اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ غزہ سے اٹھنے والی ان بچوں کی چیخ و پکار کسی کو سنائی نہیں نہیں دے ر ہی غزہ معصوم بچوں کی مقتل گاہ بن چکا ہے اس جنگ میں ایک ماہ کے دوران 11,000 سے زائد افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں جس میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ اسرائیلی جارحیت اب صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ مغربی کنارے بھی اس کی لپیٹ میں ٓگیا ہے لبنان اور شام میں بھی اسرائیلی بمباری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اردن کو بھی اسرائیل نے آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ان اسرائیلی اقدامات سے ظاہر ہورہا ہے کہ بات کسی غیر معمولی نتیجہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ گریٹر اسرائیل ہے جس کو ناکام بنانے کیلئے فلسطینی اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ گریٹر اسرائیل کے نقشہ میں شام ، لبنان، اردن ہی نہیں بلکہ مصر اور عراق بھی شامل ہیں جس کی تکمیل میں بنیامین نیتن یاہو مصروف ہیں اور اسرائیل کے اس مقصد کے حصول کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادی اس گریٹ گیم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔