کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گوگل کے ویب پیج پر ان کا لوگو کبھی کسی خاص دن کے موقع پر تبدیل کیوں ہو جاتا ہے . مثلاً پاکستان کا یوم آزادی ہو تو گوگل کا یہ لوگو سبز اور سفید رنگ میں پاکستان کے پرچم کی تصویر کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اسی طرح آٹھ فروری 2024ء کو پاکستان میں عام انتخابات کے موقع پر بھی گوگل نے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں اپنے آفیشل لوگو کو تبدیل کیا اسے گوگل ڈوڈل کی اصطلاح کا نام دیا گیا ہے۔گوگل آفس میں اس کا باقاعدہ ایک الگ ڈیپارٹمنٹ موجود ہے۔29 مارچ کو گوگل کی آفیشل ویب سائٹ پر گوگل ڈوڈل پر ہمیں ایک کیمرا مین کا عکس نظر آیا۔ بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں داڑھی والا ایک بوڑھا کیمرہ پکڑے کھڑا ہے بہت سے لوگوں کو اس کا بیک گراؤنڈ معلوم نہیں تھا۔ یہ گوگل ڈوڈل ایرانی نژاد فرانسیسی فوٹو جرنلسٹ عباس عطار کی ہے۔ عباس عطار نے انقلاب ایران کی رپورٹنگ اپنے کیمرے کے لینز سے اس ماہرانہ انداز میں کی کہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر عالمی اخباروں پر چھائی رہیں ایک ایک تصویر ہزار لفظوں کی کہانی بیان کرتی ۔ عباس عطار نے انقلاب ایران کے علاوہ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں سیاسی اور سماجی تاریخ کے اہم واقعات کو اپنے کیمرے کے لینز میں محفوظ کیا۔انہیں فوٹوگرافی پر کئی عالمی ایوارڈز بھی ملے۔ عباس عطار کا گوگل ڈوڈل بنا کر گوگل انتظامیہ نے صرف عباس عطار کو 80 ویں سالگرہ پر ہی خراج عقیدت پیش نہیں کیا بلکہ صحافت میں تصویری صحافی یعنی فوٹو جرنلسٹوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔اخبار میں مضمون ہو یا خبریں ہوں تصویر کی اہمیت مسلمہ ہے ا سی اہمیت کے پیش نظر ہی ان فوٹوگرافروں کو صحافی کا درجہ دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہے۔ یہ فوٹو جرنلسٹ کاندھے پر کیمرے لٹکائے سارا دن شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی موٹر سائیکلوں پر اڑتے پھرتے اور جہاں کوئی حادثہ یا واقعہ رونما ہوتا وہاں کی تصاویر کھینچتے اور اخبار کے دفتر میں شام سے پہلے وہ تصاویر پراسس ہو کر اگلے دن کے اخبار کی زینت بن جاتی ہیں۔ روزانہ اخبار میں چھپنے کے بعد اہم تصاویر کو اخبار کی فوٹو لائبریری میں بھی محفوظ کر دیا جاتا تھا تاکہ بوقت ضرورت کام آسکیں۔ بدلتے وقت میں اب ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے وہ ایک فوٹو جرنلسٹ ہے۔اب فوٹوگرافروں کو جائے وقوعہ پر بھاگ دوڑ کر پہنچنے کی وہ جلدی نہیں ہوتی کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہوتی ہیں۔ پہلے ہر اچھے اخبار کے دفتر میں ایک فوٹو لائبریری ہوتی تھی ایک بڑے معاصر اردو اخبار جہاں سے میں نے اپنی ملازمت کا آغاز کیا وہاں بہت اپ ٹو ڈیٹ فوٹو لائبریری تھی۔ دفتر کے پہلے فلور پر موجود ،اندر جانے والی راہداری کے ایک طرف رپورٹنگ روم تھا دوسری طرف نیوز روم اور یہ راہداری چلتی ہوئی جس جگہ اختتام پذیر ہوتی وہاں ایک چھوٹے سے کمرے کے باہر فوٹو لائبریری کی تختی آویزاں تھی۔ یہاں پر ہمیں صحافت سیاست شوبز غرض کے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تصویریں مل جاتیں،تصاویر کو کتابوں کی لائبریری کی طرح ترتیب وار کیٹا لاگ کی صورت رکھا گیا تھا۔یہاں بڑی بڑی نایاب تصویریں بھی موجود تھیں۔ ایسے ایسے لوگ تصویروں کی صورت اس کیٹلاگ میں موجود تھے جن کے گرد کبھی زندگی اور زندگی کے ہنگامے رقص کرتے تھے۔ ہمیں اپنے مضمون کے متعلق جس طرح کی تصویر کی ضرورت پڑتی وہ تصویریں ہم لائبریری سے ایشو کرواتے۔ صفحہ تیار ہونے کے بعد ان تصویروں کو واپس ہمیں لائبریری میں جمع کروانا پڑتا اس کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا جاتا تھا۔ یہاں پر کچھ نادر تصاویر بھی موجود تھیں ایک مضمون کے ساتھ شائع کرنے کو قائد اعظم رحمۃ اللہ کی ایک اوریجنل تصویر فوٹو لائبریری سے ایشو کروائی اور پھر دانستہ کھسکا لی بابائے قوم کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر آج بھی میں نے عقیدت اور احترام سے اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہے۔اب اخبارات میں فوٹو لائبریری کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ فوٹو لائبریرین بھی اب ایک متروک شدہ شعبہ ہے۔ دنیا کے ہر موضوع پر لاکھوں ویڈیوز اور تصاویر صرف ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہیں۔اور تو اور اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا زمانہ ہے یہ حیران کن ٹیکنالوجی آپ کی ایک کمانڈ پر صدیوں پہلے گزرے زمانوں کو تصویروں میں ڈھال سکتی ہے۔کسی بھی سلیبرٹی کی تصویر آپ کو کس شکل میں چاہیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی آپ کو سیکنڈز میں۔مطلوبہ تصویر مہیا کر دے گی۔ فوٹوگرافر جو سارا دن فیلڈ میں کام کرتے تھے،اب صحافت کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں ماضی کی طرح تصویر کی تلاش میں ہر وقت سڑکوں پر بھاگتے دوڑتے نظر نہیں آتے بلکہ بیشتر نئی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال جانتے ہیں اور اپنے واٹس ایپ پر تصویروں کے شیئر ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔اب ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ ہے ہر شخص فوٹوگرافر جرنلسٹ ہے کہیں کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو پہلے کی طرح اخبار کے فوٹوگرافر کو پہنچنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی تصویریں دفتر میں پہنچ جائیں گی کیونکہ اب ہر شخص فوٹوگرافر جرنلسٹ ہے ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ ہے۔فوٹو گرافروں نے جنگوں میں بھی اپنے فرائض نبھائے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جنگوں کو کور کیا۔انسانی تاریخ کی مہلک ترین جنگ غزا میں جاری ہے دنیا تک اسرائیل کے مظالم تصویروں اور ویڈیوز کی صورت میں پہنچ رہے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں سیکنڈز میں پوری دنیا کے اندر خبر پہنچ جاتی ہے۔ غزہ کے یہ بہادر عکس گر غیر معمولی صبر اور استقامت کے ساتھ اسرائیلی مظالم کو کیمرے کے لینزوں میں محفوظ کر کے دنیا کے سامنے اس ظلم کے پردے کو چاک کر رہے ہیں۔غیر معمولی صبر اور استقامت کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا کہ بیشتر فوٹوگرافر ایسے ہیں جن کا اپنا پورا پورا خاندان اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس ظلم کو تصویر کر کے دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔