ہمارے ملک کی ایک عام روایت ہے ’’دھیان بٹانا‘‘ یا یہ کہہ لیں کہ یہ ایک عام مشغلہ بھی ہے۔ مطلب جب آپ کسی سنجیدہ مسئلے پر پھنسے ہوں تو آپ کے ماتحت عملہ یا افسران یا نچلا عملہ اُس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے آپ کا دھیان بٹانے کی کوشش کرے گا۔ آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں تو بسا اوقات ایک آدھ آفیسر آپ کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے کوئی ایسا چٹکلہ چھوڑ دے گا کہ ساری میٹنگ کشت زعفران بن جائے گی اور جس مقصد کے لیے آپ اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہی حال آجکل حکومت کا ہے کہ جب بھی حکمران کسی مسئلے پر پھنستے ہیں تو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے آج کل ہمارے ہاںایک نیم سرکاری تعلیمی ادارے کو چھیڑا گیا ہے،،، جس سے گورنر سے لے کر بیوروکریسی کا سارا نظم ہل کر رہ گیا ہے… سوشل میڈیا پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ یہ سارا معاملہ اب تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر اس میں جو لوگ ایکسپوز ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے واقعی لمحہ فکریہ ہے۔ اس معاملے میں بھی گورنرپنجاب خاصے ایکسپوز ہوئے ہیں۔ کہ ایک بچہ اگر اپنی سیٹ رکھوا کر کہیں اور داخلہ لے لیتا ہے تو اُس کی فیس معاف کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن یہ عہدے رکھنے والی نام نہاد شخصیات ان عہدوں کا ناجائز فائدہ اُٹھاتی ہیں ۔ خیر آگے چلنے سے پہلے صدارتی نظام اور گورنری نظام پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اس وقت بہت سے ملکوں میں صدارتی نظام رائج ہے جسے کے مطابق صدر کو براہ راست عوام منتخب کرتے ہیں، جس کے بعد وہ تمام صوبوں یا ریاستوں میں سے اپنے لوگ منتخب کرتا ہے اور یوں وہ پورے ملک پر ایک خاص مدت کے لیے حکمرانی کرتا ہے۔ اس قسم کا نظام امریکا، افغانستان، ارجنٹائن، میکسیکو، میانمار، برازیل، چلی، کولمبیا، انڈونیشیا، کینیا، کولمبیا اور سوڈان وغیرہ میں رائج ہے۔ جبکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس میں وزیراعظم ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے ، جبکہ صدارتی نظام کی باتیں یہاں اُس وقت زور پکڑتی ہیں جب الیکشن قریب آرہے ہوتے ہیں اور حکومت وقت کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے علاوہ خلافت نظام اور اسلامی نظام کی باتیں بھی عام ہونے لگتی ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کا دھیان بٹانا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی جو ہم کچھ کر نہیں پائے اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمانی نظام خراب ہے۔ کیونکہ جن کو لایا گیا ہوتا ہے ان کے متعلق تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خراب ہیں یا کرپٹ ہیں اس لیے ملبہ نظام پر ڈال دیا جاتا ہے۔اور ویسے بھی پاکستان میں صدارتی نظام کی باتیں ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ہوا کرتی ہیں، یعنی مکمل صدارتی نظام کا تجربہ ایوب خان نے ہی 1962 سے 1969 تک کیا تھا۔ باقی ادوار مارشل لا کے تھے جو کہ بذاتِ خود سینٹرلائزڈ یا سب کچھ مرکز کے تحت لانے والے ہوتے ہیں۔ ایوب خان کا 58 سے 62 تک مارشل لا، پھر یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لا، ان ساروں میں کمان ایک شخص میں مجتمع ہوتی ہے جو کہ صدارتی نظام میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ طاقت کی مرکزیت ہے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے اور جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس نظام یا نئے نظاموں کے بارے سوچا جائے۔ لیکن جو سب سے زیادہ سوچنے کی چیزیں ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم نے پارلیمانی نظام کو موقع ہی کب دیا، یعنی کیا ہم نے اس نظام کو پوری طرح Implementکیا؟ آج بھی اسمبلیوں میں چلے جائیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی کورم پورا نہ ہونے کا ہے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نظام کے بدلنے سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس نظام سے ہم ایمان دار ہو جائیں گے؟ کیا ہم نوبل پرائز حاصل کرنے کے لیے تگ و دو شروع کر دیں گے؟ کیا ہمارا عدالتی نظام ٹھیک ہوجائے گا؟ کیا ہماری عدالتوں میں موجود 30لاکھ سے زیادہ زیر التواء کیسز کا فیصلہ ہو جائے گا؟ کیا ہماری معاشی حالت ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا ہم اندر سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟ کیا ہم دنیا میں سچ بولنے والی قوم گنے جائیں گے؟ کیا ہمارا سٹریٹ کرائم کم ہو جائے گا؟ کیا ہماری اصلاح ہو جائے گی؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا ہمارے ادارے ٹھیک کام کرنے لگ جائیں گے؟ کیا ہمارے بیوروکریٹ ٹھیک ہو جائیں گے؟ کیا ہمارا انکم ٹیکس آفیسر پرائیویٹ کاروباریوں کی نوکریاں کرنا چھوڑ دے گا؟ کیا ہماری پولیس ٹھیک کام کرنے لگے گی؟ کیا ہمارا پولیس کا سپاہی عام آدمی کے تحفظ کے لیے کھڑا ہوگا؟اور پھر کیا اس سے ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک ہو جائے گی؟ کیا اس نظام سے ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا؟ کیا اس نظام کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر سے لوگ اس ملک میںانویسٹمنٹ کے لیے آنا شروع ہو جائیں گے؟ کیا سیاحوں کی بھرمار ہو جائے گی؟ کیا صدارتی نظام لانے سے ہمارے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے؟ کیا مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا؟ کیا سی پیک دوبارہ اپنی سپیڈپکڑ لے گا؟ یا پھر کیا ہم ایک مہذب قوم گنے جائیں گے؟ اور پھر دنیا میں جتنے بھی حکومتی نظام متعارف کروائے گئے ہیں ان میں لوگوں کی معاشی حالت بدلنے کا دعویٰ سب سے پہلے کیا گیا۔ جہاں عام آدمی کا لائف سٹائل بہتر ہوا ہے اس نظام کو ہی کامیابی کا تاج پہنایا گیا ہے۔ چین کا نظام حکومت دنیا سے مختلف ہے لیکن اس نے پچھلے چالیس سال میں معاشی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ دبئی میں بادشاہت کا نظام ہے اور اسی نظام کے تحت متحدہ عرب امارات کے صحرا امریکہ اور یورپ سے زیادہ جدید شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہے جو کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایران کا طرز ِحکومت باقی دنیا سے مختلف ہے۔ گو کہ وہاں معاشی انقلاب نہیں آ سکا لیکن دنیا بھر کی جانب سے عائد پابندیوں کے باوجود سوئی سے لے کر جہاز تک ایران میں تیار کیے جاتے ہیں۔ تہران دنیا کا سستا ترین شہر ہے اور ایران گلف ممالک میں سب سے بڑی پراکسیز کی مالی امداد کر رہا ہے۔ تقریبا ًسالانہ آٹھ ارب ڈالرز فلسطین، لبنان، شام اور یمن میں جنگجوئوں کی مالی امداد پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یعنی قصور ہمارے نظام کا نہیں بلکہ ڈلیور کرنے والوں کا ہے۔ جو موجودہ سسٹم سے ہی اگر ہم فائدہ نہیں لے سکتے تو پھر نئے نظام میں کیسے تبدیلی لے آئیں گے؟ اگر موجودہ سسٹم میں ہی ہم ایک دوسرے کے اداروں کو احترام نہیں کریں گے تو ہمیں یہ عہدے اضافی لگنا شروع ہو جائیںگے۔۔۔ مسئلہ ان گورنرز کا نہیں بلکہ شاہانہ انداز میں حکومتیں کرنے اور فضول قسم کے احکامات جاری کرنے کا ہے۔ میرے خیال میں اگر تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں گے تو اسی سے ملک ترقی کرے گا۔ ورنہ پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں بچے گا جہاں سفارشی کلچر نہ ہو!